Wednesday, September 9, 2020

ایک اور معصوم جان سے گئی

'خصوصی جنس'سے تعلق رکھنے والی ایک نوجوان خاتون گل پانہ کو بیدردی سے قتل کردیا گیا۔ ہم نے جان کر خصوصی جنس کہا  ہے ور نہ معاشرہ انھیں ہیجڑہ، خواجہ سرا، کھسرا، چھمک چھلو اور دوسرے انتہائی حقارت آمیز ناموں سے پکارتا ہے۔

یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ قتل ہونے والی  لڑکی  پشتو گلوکارہ گل پانہ  نہیں ۔

پولیس رپورٹ کے مطابق گل پانہ کو پشاور میں  نامعلوم افرادنے گولی مار کر قتل کیا  اور اس حملے میں اسکی ایک ساتھی زخمی ہوگئی۔

خصوصی جنس سے تعلق رکھنے والی خواتین  ملک کا وہ بدنصیب ترین طبقہ ہے جسے خود انکے والدین بدنامی کے ڈر سے گھر بدر کرکے قطع تعلق کرلیتے ہیں جسکے بعد انکے لئے بھیک مانگنے اور جسم فروشی کے علاوہ پیٹ پالنے کا کوئی راستہ ہی نہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں خصوصی خواتین کی تعداد 5 لاکھ ہے۔

قانونی تحفط اور سرکاری سرپرستی سے محروم ان  خواتین کا  قتل، مجرمانہ حملے، ہراسگی اور جنسی بدسلوکی روزمرہ کا معمول ہے۔ا یک اندازے کے مطابق گزشتہ 5 سال کے دوران 1500 خصوصی خواتین مجرمانہ حملوں کا نشانہ بنیں اور کم ازکم 68 خواتین کو ہلاک کردیا گیا۔ انسانی حقوق کی تنظیم HRWکے مطابق 2018 کے دوران صرف خیبر پختونخواہ میں ان خواتین پر 479 مجرمانہ حملے کئے گئے۔ یہ وہ اعدادوشمار ہیں  جو پولیس رپورٹ کی بنیاد پر مرتب کئے گئے۔ مجرم پیشہ افراد کی دھمکیوں کی بنا پر  اکثر لڑکیاں  بدسلوکی کو قسمت کا لکھا سمجھ کر خاموشی سے برداشت کرلیتی ہیں اسلئے کسی کو کچھ پتہ بھی نہیں چلتا۔

2018 کے عام انتخابات میں بہت سی خصوسی خواتین   ے انتخابات میں حصہ لیا تھا جن میں سے ایک 30 سالہ    خاتون  ماریہ خان تھیں جنھوں نے مانسہرہ کے حلقے  PK-31 سے قسمت آزامائی کی تھی۔ اس  لڑکی کی روداد ہم نے سنی تھی۔ماریہ کو  بہت کم عمری میں انکے والدین نے گھر سے نکال دیا اسکے بعد اس پر جو گزری اسے نقل کرنے کی ہم میں ہمت نہیں۔ بس یوں سمجھئے کہ جسمانی و جذباتی تشدد کے جتنے ہتھکنڈے رائج ہیں یہ لڑکی  ان سب سے گزری۔ماریہ دنبے کے نشان پر انتخاب لڑی تھی ہے جسکا انتخاب ماریہ نے قربانی کی علامت کے طور پر کیا  تھا

ان مظلوموں کی دادرسی کون کریگا؟


 

No comments:

Post a Comment