دہری شہریت، پارلیمنٹ کی رکنیت اور تحفظات
وفاقی حکومت نے غیر ملکی شہریت کے حامل افراد کو پارلیمینٹ کا انتخاب لڑنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔تاہم ان لوگوں کو حلف اٹھانے سے پہلے اپنی غیر ملکی شہریت ترک کرنی ہوگی۔
بیرون ملک آباد پاکستان وطن عزیر کیلئے جوگرانقدر خدمات انجام دے رہے ہیں اس سے کسی کو انکار نہیں۔یہ کروڑوں پاکستانی اپنےخون پسینے کی کمائی سے حاصل ہونے والا قیمتی زر مبادلہ ملک بھیجتے ہیں اور یہ انمول سرمایہ ملکی معیشت کے پہیے کو رواں دواں رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے برآمدات میں کمی کی بنا پرزرمبادلہ کے ذخائر دباو کو شکار ہیں اور پاکستانی تارکین وطن کی ترسیلات نےملکی معیشت کو مضبوط سہارا فراہم کیا ہے۔
تاہم دہری شہریت رکھنے والے پاکستانیوں کیلئے پارلیمان کی رکنیت کا معاملہ اتنا سادہ نہیں اور یہاں آئین و قانون سے زیادہ اخلاقیات کا پہلو قابل غور ہے۔ کسی دوسرے ملک کی شہریت کا حلف اٹھاتے ہوئے ہر فرد کو اس نئے ملک سے وفاداری کا وعدہ کرنا پڑتا ہے جسمیں دفاع کیلئے ہتھیار اٹھانا بھی شامل ہے۔کچھ ممالک کے حلف وفاداری میں یہ بات بہت صراحت کے ساتھ درج ہے کہ اس حلف کو اس سے پہلے کئے جانیوالے تمام وعدوں اور وابستگیوں پر فوقیت حاصل ہوگی یعنی پاکستانی شہریت کے تقاضے ثانوی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔یہاں دلیل یہ دی جارہی ہے کہ دوسرے ملک کی شہریت کا حلف محض چند الفاظ ہیں اور پاکستان سے وفاداری خون میں بسی ہوئی ہے۔
اخلاقی اعتبار سے یہ تصور ہی غلط ہے۔ اس سے دوسرے ملکوں میں پاکستانیوں کے بارے میں منفی تصور پیدا ہوگا اور انھیں ناقابل اعتبار شہری سمجھاجائیگا۔ حلف کو محض مشغلہ زبان سمجھنا اخلاقی، سیاسی اور دینی ہر اعتبار سے نامناسب ہے۔ یہ ایک وعدہ ہے جسکی تکمیل لازم ہے۔پارلیمان کا رکن وزیراعظم اور کابینہ کا رکن ہوسکتا ہے اوراس حیثیت میں اسے کئی بار ایسے فیصلے کرنے ہوتے ہیں جس سے کسی ایک ملک کے مفادات پر ضرب پڑتی ہے اس صورت میں اسکے لئے ضمیر کے مطابق فیصلہ کرنا ممکن نہیں۔ موجودہ صورتحال کے تناظر میں تو دو کشتی میں سوار افراد کو بار بار اس آزماٗش سے دوچار ہونا پڑرہاہے مثلاً تحٖفظ ختم نبوت ترمیم اور ناموس رسالت قوانین کی منسوخی ، امریکہ اور یورپی مملک کے لئے بہت اہم ہے جبکہ پاکستان کیلئے یہ قومی عزت و وقار کا مسئلہ ہے۔ دہری شہریت رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ کیلئے اس معاملے پر فیصلہ کرتے ہوئے اپنے کسی ایک حلف سے روگردانی کرنی ہوگی۔
اگر چند سال پہلے پیش آنے والے سلالہ کے واقعے کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان جنگ تھی اور امریکی شہریت کا حلف یہ تقاضہ کرتا ہے کہ اس معرکے میں امریکی شہری ضرورت پڑنے پر مسلح ہوکراپنے ملک کا تحفظ کرے تو دوسری طرف پاکستانی قوم بھی اپنے شہریوں سے اس جارحیت کے خلاف مسلح مزاحمت کی توقع کرتی ہے۔ شاہراہ سیاست پر ایسے دوارہے بار بار آئینگے جہاں ضمیر اور پیٹ کے اشارے مختلف و متضاد ہونگے۔ وزارت عظمیٰ اور کابینہ کی رکنیت کے علاوہ ارکان پارلیمان مجالس قائمہ اور دوسری کمیٹیوں کے ممبر بھی ہوتے ہیں جہاں حساس ملی و قومی معاملات زیر بحث آتے ہیں۔ یہاں رازداری کی نزاکت کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں حساس معلومات تک رسائی محدود ہوتی ہے جبکہ پارلیمان ملک کا سب سے بالادست ادارہ ہےجہاں ہر معاملے پر تفصیلی اور سیر حاصل بحث کی جاتی ہے۔ نتیجے کے طور پر قومی اہمیت کے تمام امور اور حساس معاملات ارکان پارلیمنٹ کے علم میں ہوتے ہیں۔دوسری طرف چچا سام نے اپنے شہریوں کو اس بات کا پابند بنایا ہے کہ وہ ایسی تمام معلومات سی آئی اے، ایف بی آئی اور وزات دفاع کو فراہم کریں جسکا تعلق امریکہ کی سلامتی سے ہے۔
واشنگٹن آئی ایس آئی اور پاکستان کے جوہری پروگرام کے بارے شدید تحفظات رکھتاہے اور امریکی سی آئی اے نے اس سلسلے میں خصوصی سیل قاٗئم کر رکھے ہیں جہاں ان سے متعلق مواد اکھٹا کیا جاتا ہے۔کیا امریکی شہریت کے حامل ارکان پارلیمنٹ سی آئی اے اور دوسرے تحقیقاتی اداروں کو یہ معلومات فراہم کرنے سے انکار کرسکتے ہیں؟ ایسا کرنا ممکن نہیں کہ امریکی پیٹریاٹ ایکٹ ((Patriot Act مجریہ 2002 کے تحت امریکی شہری ایسی تمام معلومات اپنے خفیہ اداروں کو پہنچانے کے پابند ہیں جن سے انسداد دہشت گردی میں مدد ملتی ہو۔ سیکیورٹی ایجنسیوں سے عدم تعاون کی صورت میں ان پر غداری کا مقدمہ قائم ہوسکتا ہے اور اگر وہ پاکستان کی محبت میں سماعت کے دوران دروغِ مصلحت آمیز سے کام لیں تو یہ بات دیانت کے سراسر خلاف ہے کہ ؏ وفاداری بہ شرطِ استواری اصل ایماں ہے۔
دہری شہریت سے امپورٹڈ وزیراعظم کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔آپکو یادہوگاجولائی1993 میں ورلڈ بینک کے نائب صدر معین قریشی اسلام آباد تشریف لائے۔صدروسیم سجاد نے ان سے قائم مقام وزیراعظم کا حلف لیا اور قومی شناختی کارڈ انکے حوالے کردیا گیا۔ تین ماہ بعد وزارت عظمیٰ کی مدت ختم ہونے پر قریشی صاحب وزیراعظم ہاوس سے ائرپورٹ پہنچے اورواپس امریکہ روانہ ہوگئے۔امپورٹد قیادت کونہ تو پاکستانیوں کے مسائل کا ادراک ہےاور نہ ہی ملک کےمفاد سے کوئی دلچسپی۔ امپورٹد اور میڈ ان پاکستان کی بحث سے قطع نظر دہری شہریت کے حامل فرد کیلئے پارلیمنٹ کی رکنیت نہ تو پاکستان کے مفاد میں ہے اور نہ ہی خود اس رکن کیلئے کہ ایک ملاح بیک وقت دوکشتیوں میں سوار نہیں رہ سکتا۔
دہری شہریت کی منسوخی بھی ایک طویل اور پر تکلف معاملہ ہے یعنی محض خط لکھدینا کافی نہیں بلکہ جس طرح شہریت کیلئے جج کے سامنے حلف اٹھانا ضروری ہے اسی طرح شہریت ختم کرنے کیلئے ٹیکس حکام سے کلیرنس سرٹیفیکیٹ کے بعد جج کے سامنے حلف اٹھاکر پاسپورٹ اور قومیت کی سرٹیفیکیٹ کی سپردگی کے بغیر شہریت ختم نہیں ہوتی۔دونمبر سیاستدان محض حلف نامہ جمع کراکر دھوکہ دینے کی کوشش کرینگے۔
وضاحت اور اعتراف: راقم الحروف خود دہری شہریت کا حامل ہے
No comments:
Post a Comment