ترکی بمقابلہ یورپی یونین
مشرقی بحر روم کی آبی سرحدوں کا معاملہ اب یورپ
اور ترکی کے درمیان جنگ بنتا نظر آرہا ہے۔ترکی بحر روم کے مشرقی حصے کو اپنی اور
ترک قبرص کی ملکیت قرار دیتا ہے اور اس نے ماضی میں وہاں تیل و گیس تلاش کرنے والی
فرانسیسی ، امریکی اور اطالوی کمپنیوں کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا۔حال ہی
میں ترک بحریہ نے قبرص وزارت معدنیات کی Seismicکشتی کو ڈبونے کی دھمکی دیکر دور ہٹا دیا تھا۔
فرانسیسی صدر میکرن کو بحر روم اور شمالی افریقہ میں ترکی کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ پر سخت تشویش ہے۔ انکا خیال ہے کہ اگر بحر روم پر ترکی کی اجارہ داری قائم ہوگئی تو اس سےیورپ کیلئےشدید مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں ۔ فرانس کو لیبیا میں ترکی کا کردار بھی پسند نہیں۔ آیا صوفیہ کو نماز کیلئے کھولدینے کے بعد سے اس کشیدگی نے مذہبی رنگ بھی اختیار کرلیا ہے۔
10 ستمبر کو بحرروم کے7 یورپی ملکوں کا سربراہی اجلاس شمال مغربی بحرروم کے فرانسیسی جزیرے کوس (Corsica)میں ہوا۔ یہ تنظیم EuroMed-7 کہلاتی ہے۔2016 میں قائم ہونے اس گروپ کو کلب میڈ بھی کہاجاتا ہے۔
اجلاس میں صدرمیکرون کے علاوہ مالٹا، ہسپانیہ، یونان، (یونانی) قبرص، پرتگال اور اٹلی کے وزارئے اعظم شریک ہوئے۔
بات چیت کے اختتام پر یونانی وزیراعظم مٹسوٹاکس نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ اگر ترکی مشرقی بحرروم سے اپنے اثاثے یعنی ڈرلنگ رگز ، سائزمک کشتیاں اور جنگی جہاز ہٹاکر مذاکرات کیلئے آمادہ نہ ہوا تو یورپی یونین پابندیاں عائد کرنے پر مجبور ہوجائیگی۔ وزیراعظم مٹسوٹاکس کا کہنا تھا کہ معاملہ صرف یونان کا نہیں بلکہ (بحرروم پر ترکی کی بالادستی سے) سارے یورپ کا معاشی مفاد داو پر لگ جائیگا۔ یہ یورپی اتحادکی بقا کا معاملہ ہے۔ ساتوں ممالک نے مشترکہ بیان میں کہا کہ اگر ترکی ، یونان اور قبرص سے مذاکرات پر راضی نہ ہوا تو ستمبر کے اختتام سے اس پر پابندیاں عائد کردی جائینگی۔
ترک وزارت خارجہ کے ترجمان حامی اقصیٰ نے کلب میڈ کی طرف سے پابندیوں کی دھمکی کو متعصبانہ قراردیا۔ انھوں نے کہاکہ ان سات ممالک کو نہ مشرقی بحر روم کی جغرافیہ کا کچھ علم ہے اور نہ یہ زمینی حقائق سے واقف ہیں۔ جناب حامی نے کہا کہ ترکی بات چیت کے ذریعے تنازعے کو حل کرنے کو تیار ہے مگرگفتگو غیر مشروط ہونی چاہئے یعنی ترکی سمجھوتے سے پہلے بحر روم میں اپنی سرگرمیاں محدود نہیں کریگا۔ ترک وزارت خارجہ کے ترجمان نے کلب میڈ کو یاددلایا کہ قبرص ایک نہیں دو ملک ہے اور ان مذاکرات میں ترک قبرص کی شرکت بھی ضروری ہے۔
دوسری طرف ترک بحریہ نے یونانی جزیرے کریٹ کے قریب اور مشرقی بحرروم میں نشانے بازی کی مشقیں اس ماہ کے تیسرے ہفتے تک جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
فرانسیسی صدر میکرن کو بحر روم اور شمالی افریقہ میں ترکی کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ پر سخت تشویش ہے۔ انکا خیال ہے کہ اگر بحر روم پر ترکی کی اجارہ داری قائم ہوگئی تو اس سےیورپ کیلئےشدید مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں ۔ فرانس کو لیبیا میں ترکی کا کردار بھی پسند نہیں۔ آیا صوفیہ کو نماز کیلئے کھولدینے کے بعد سے اس کشیدگی نے مذہبی رنگ بھی اختیار کرلیا ہے۔
10 ستمبر کو بحرروم کے7 یورپی ملکوں کا سربراہی اجلاس شمال مغربی بحرروم کے فرانسیسی جزیرے کوس (Corsica)میں ہوا۔ یہ تنظیم EuroMed-7 کہلاتی ہے۔2016 میں قائم ہونے اس گروپ کو کلب میڈ بھی کہاجاتا ہے۔
اجلاس میں صدرمیکرون کے علاوہ مالٹا، ہسپانیہ، یونان، (یونانی) قبرص، پرتگال اور اٹلی کے وزارئے اعظم شریک ہوئے۔
بات چیت کے اختتام پر یونانی وزیراعظم مٹسوٹاکس نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ اگر ترکی مشرقی بحرروم سے اپنے اثاثے یعنی ڈرلنگ رگز ، سائزمک کشتیاں اور جنگی جہاز ہٹاکر مذاکرات کیلئے آمادہ نہ ہوا تو یورپی یونین پابندیاں عائد کرنے پر مجبور ہوجائیگی۔ وزیراعظم مٹسوٹاکس کا کہنا تھا کہ معاملہ صرف یونان کا نہیں بلکہ (بحرروم پر ترکی کی بالادستی سے) سارے یورپ کا معاشی مفاد داو پر لگ جائیگا۔ یہ یورپی اتحادکی بقا کا معاملہ ہے۔ ساتوں ممالک نے مشترکہ بیان میں کہا کہ اگر ترکی ، یونان اور قبرص سے مذاکرات پر راضی نہ ہوا تو ستمبر کے اختتام سے اس پر پابندیاں عائد کردی جائینگی۔
ترک وزارت خارجہ کے ترجمان حامی اقصیٰ نے کلب میڈ کی طرف سے پابندیوں کی دھمکی کو متعصبانہ قراردیا۔ انھوں نے کہاکہ ان سات ممالک کو نہ مشرقی بحر روم کی جغرافیہ کا کچھ علم ہے اور نہ یہ زمینی حقائق سے واقف ہیں۔ جناب حامی نے کہا کہ ترکی بات چیت کے ذریعے تنازعے کو حل کرنے کو تیار ہے مگرگفتگو غیر مشروط ہونی چاہئے یعنی ترکی سمجھوتے سے پہلے بحر روم میں اپنی سرگرمیاں محدود نہیں کریگا۔ ترک وزارت خارجہ کے ترجمان نے کلب میڈ کو یاددلایا کہ قبرص ایک نہیں دو ملک ہے اور ان مذاکرات میں ترک قبرص کی شرکت بھی ضروری ہے۔
دوسری طرف ترک بحریہ نے یونانی جزیرے کریٹ کے قریب اور مشرقی بحرروم میں نشانے بازی کی مشقیں اس ماہ کے تیسرے ہفتے تک جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
No comments:
Post a Comment