Wednesday, September 30, 2020

'مہذب' رہنماوں کا طرزعمل!!

'مہذب' رہنماوں کا طرزعمل!!

کل 2020 کے امریکی صدارتی انتخاب کا پہلا مباحثہ ہوا جوامریکی سیاست کی صدیوں پرانی روائت ہے۔ سب سے پہلا مباحثہ  1858 میں ابراہام لنکن اور اسٹیفن ڈگلس کے درمیان ہوا تھا جب یہ دونوں  حضرات سینیٹ کی نشست کیلئے قسمت آزمائی کررہے تھے۔

پہلاباقاعدہ مباحثہ 1960 کے صدارتی انتخابات کے دوران جان ایف کینیڈی اور رچرڈ نکسن کے درمیان  ہوا جسے  ساڑھے چھ کروڑ امریکیوں نے دیکھا اور سنا۔ اسوقت امریکہ کی آبادی 18کروڑ کے قریب تھی۔ اسکے بعد آزاد امیدواروں کے میدان میں اترنے کی وجہ سے تعطل پیدا ہوااور موجودہ سلسلے کا آغاز 1976 میں ہوا جب جیرالڈ فورڈ اور صدر جمی کارٹر آمنے  سامنے تھے۔

امریکی تاریخ کا مقبول ترین صدارتی مباحثہ 2016 میں صدر ٹرمپ اور سینیٹرہیلیری کلنٹن کے درمیان ہوا جسے ساڑھے اٹھ کروڑ امریکیوں نے دیکھا

امریکہ میں پاکستان کی طرح انتخابی مہم کے دوران بڑے بڑے جلسے  و جلوسوں کا رواج نہیں، نہ ہی گلی اور بازار میں بینر باندھے جاتے ہیں۔رنگین پوسٹر اور نوشتہ دیوار کا بھی یہاں فیشن نہیں۔ حمائت کے اظہار کیلئے لوگ اپنےگھروں کے لان پر امیدواروں کے کتبے نصب کردیتے ہیں یا کاروں کے بمپر پر اسٹکر لگادئے جاتے ہیں۔ اصل مہم ٹیلی ویژن کے اشتہاروں کے ذریعے چلتی ہے اور 2016 سے سوشل میڈیا اس میدان میں غالب نظر آرہا ہے۔

صدارتی مباحثہ  امیدواروں کے بارے میں رائے قائم کرنے کا سب سے موثرذریعہ ہےجہاں امیدوار نوٹس اور نکات کے بغیر انتہائی چبھتے ہوئے سوالات کے فی البدیہہ جواب دیتے ہیں۔

ان مباحثوں کا اہتمام  جامعات کے ماہرینِ سیاسیات و ابلاغ عامہ پر مشتمل مباحثہ کمیٹی کرتی ہے جبکہ  میزبانی  ایک موڈریٹر یا میزبانوں کا پینل کرتا ہے۔ بعض مباحثے ٹاون ہال کی شکل میں ہوتے ہیں جہاں عام لوگ امیدواروں سے سوال کرتے ہیں۔

مباحثے کے آغاز پر ہرامیدوار افتتاحی خطاب اور تعارف کے لئے دو منٹ دئے جاتے ہیں جسکے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ یہ سوالات اہم موضوعات  کے حوالے سے ہوتے ہیں۔ ہرسوال کے جواب  کیلئے امیدوار کو دومنٹ دئے جاتے ہیں جسکے بعد مخالف امیدوار کو ایک منٹ تک جرح کرنے کی مہلت ہوتی ہے۔ اختتام پر دونوں امیدوار دو دو منٹ میں اپنی گفتگو کا خلاصہ پیش  کرتے ہیں۔

غیر جانبداری برقرار رکھنے کیلئےقرعہ اندازی کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ  کس امیدوار کو افتتاحی خطاب  کیلئے پہلے دعوت دی جائیگی اورپہلا سوال کس سے پوچھا جائیگا؟

کل ریاست اوہائیوکی ایک جامعہ برائے طب میں مباحثہ ہوا جسکے میزبان فاکس نیوز کے کہنہ مشق اینکر کرس والس تھے جنھوں نے دونوں امیدواروں سے

صدر ٹرمپ کے ٹیکس گوشوارے،  کرونا وائرس، سپریم کورٹ کیلئے جج کا تقرر، انتخابات کی شفافیت، نسلی معاملات، ماحولیات ، صحت کے نظام اور دیگر موضوعات پر دونوں امیدواروں سے سوالات کئے گئے لیکن پہلے ہی سوال پر صدرٹرمپ    نے میزبان سے بحث شروع کردی۔ اسکے بعد یہ  90 منٹ کا مباحثہ ایکدوسرے کی تضحیک  اور مداخلت کے سوا اور کچھ نہ رہا۔ مباحثے میں سب سے قابل رحم حالت میزبان کی تھی جنکی بات کوئی بھی سننے کو تیار نہ تھا۔

بار بار مداخلت پر عاجز آکر جو بائیڈن چیخ کر بولے You shut up man تھوڑی دیر بعد سابق نائب صدر نے بے بسی سے کہا کہ 'اس  مسخرے کے سامنے تو بات کرنا مشکل ہے'۔ کئی مرتبہ صدر ٹرمپ کو ٹوکتے ہوئے  میزبان نے کہا کہ وہ مباحثے کے قواعد کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور دوسرے امیدوار کو بات مکمل کرنے کا موقع نہیں دے رہے۔

صدارتی انتخابات کے حوالے سے انتہائی تلخ گفتگو ہوئی

جو بائیڈن نے ووٹرز پر زور دیا کہ وہ الیکشن کے روز اپنا حقِ رائے دہی لازمی استعمال کریں اور صدر ٹرمپ کی بیانات سے نہ گھبرائیں۔امریکی صدرنے اپنا یہ الزام دہرایا کہ انتخابات میں ڈیموکریٹس کی جانب سے بڑے پیمانے پر دھاندلی کا خدشہ ہے۔ اُن کے بقول گزشتہ ہفتے کچرے سے بیلٹ پیپرز بھی ملے ہیں۔

 جو بائیڈن نے صدر ٹرمپ سے ٹیکس دستاویزات دکھانے کا مطالبہ کیا اور دعویٰ کیا کہ انہوں نے ایک اسکول ٹیچر سے بھی کم ٹیکس ادا کیا۔ جس پر  صدر ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے لاکھوں ڈالرز ٹیکس ادا کیا ہے۔

مباحثے کے دوران صدر ٹرمپ کی مداخلت سے تنگ آکر  جو بائیڈن نے کیمرے کی طرف رخ کرکے  براہِ راست امریکی  عوام سے خطاب شروع کردیا۔

جو بائیڈن اور صدر ٹرمپ دونون کی  عمریں 70 برس سے زیادہ ہیں لیکن بحث کے دوران ایسا محسوس ہوا کہ دوبچے لڑ رہے ہیں۔


 

No comments:

Post a Comment