Wednesday, September 23, 2020

پس پردہ ملاقاتیں!! کچھ تو پیغام ِ زبانی اور ہے

حزب اختلاف  کاکل جماعتی اجتماع، اسکے بعد سیاسی قائدین کی فوج کے سربراہ سے ملاقات اور اب مسلم لیگ کے رہنما  محمد  زبیر سے جنرل قمر باجوہ اور ڈی جی  ائی ایس ائی کی بات چیت کو صحافتی حلقے معنی خیز قراردے رہے ہیں۔  سیاسی رہنماوں سے ملاقات کے بارے  میں کہا جارہا ہے کہ جنرل صاحب سیاست قیادت کو گلگت  وبلتستان کے معاملے پر اعتماد میں لینا چاہتے تھے لیکن  تبادلہ خیال  کے دوران کل جماعتی کانفرنس میں حزب اختلاف کے رہنماوں کی جانب سے  مقتدرہ کے بارے میں اٹھائے گئے تحفظات پربھی بات ہوئی۔ اس  ملاقات کے حوالے سے فوج کا  موقف  درست و منطقی معلوم ہوتاہے کہ  گفتگو کا مقصد اور مرکزی موضوعِ سخن  گلگت و بلتستان  تھا اور 'ضمنی' امور پر تبادلہ خیال مقطعے میں آپڑنے والی سخن گسترانہ بات کا شاخسانہ تھا اسلئے کہ جناب سراج الحق بھی مدعو کئے گئے تھے اور جماعت اسلامی کل جماعتی اجتماع سے لاتعلق تھی۔ اگر رہنماوں کی تقاریر پر گفتگو مطلوب  ہوتی تو جماعت اسلامی کے امیر کو بلانے کی ضرورت نہ تھی۔ تاہم کچھ امور کی وضاحت مختلف  تجزیہ نگار اپنے انداز میں کررہے ہیں مثلاً

  • پہلے کہا جارہا تھا کہ 'مجرم و مفرور' شخص کی تقریر کو ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر کرنے کی اجازت نہیں ہوگی  اور اس سلسلے میں مقتدرہ  برائے الیکٹرانک ذرایع ابلاغ یا پیمرا نے زبانی تنبیہ بھی جاری کردی تھی لیکن عین وقت پروزیراعظم نے نوازشریف کی تقریر براہ  راست نشر کرنے کی اجازت دیدی۔ عمران خان کی طبیعت سے آگاہ لوگ جانتے ہیں اعلیٰ ظرفی خانصاحب کے مزاج کا حصہ نہیں اور غالب امکان یہی ہے کہ اجازت 'عالم بالا' سے آئی تھی۔
  • کانفرنس میں نواز شریف کے بعد سب سے دوٹوک خطاب مولانا فضل الرحمان کا تھا۔اس تقریر سے کچھ دن پہلے چترال کے جلسہ عام  سے  مولانا کے خطاب کی ویڈیو کو سوشل میڈیا پر زبردست پزیرائی ملی تھی جس میں فضل الرحمان صاحب  نے بہت ہی  جذباتی انداز میں  کہا کہ 'مجھے سولی کے تختے پر چڑھادو، بندوق کی نال کے آگے کھڑا کردو لیکن میں یہ ڈنکے کی چوٹ پرپاکستان کے طاقتور اداروں کو بتادینا چاہتا ہوں کہ تم ہی نے عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ مارکر یہ ناجائزحکومت  قائم کی ہے'
  • عجیب اتفاق کہ حکومت نے تو نوازشریف کی تقریر براہ راست نشر کرنے کی اجازت دیدی لیکن پیپلز پارٹی نے  کل جماعتی کانفرنس سے مولانا فضل الرحمان کاخطاب  'سنسر' کردیا۔سیانے کہہ رہے کہ مولانا کی 'زباں بندی' انھیں کے حکم پر کی گئی جنکے اشارے پرمیاں صاحب کی تقریر براہ راست سنائی گئی
  • اگست کے آخر اور اسکے بعد 7 ستمبر کو زبیر عمر اور جنرل باجوہ کی ملاقات  کی اتنی دیر سے تصدیق کچھ نئے سوالات اٹھارہی ہے۔محمد  زبیر  اور اسد عمر مشکوک ماضی کے حامل جنرل غلام عمر کے صاحبزادے ہیں۔ مشکوک اس اعتبار سے سقوط مشرقی پاکستان کی  وجوہات کی تحقیقات کرنے والے حمود الرحمان کمیشن نے جو رپورٹ مرتب  کی ہے اس میں مبینہ طور پر جنرل یحییٰ خان، جنرل عبدالحمید، جنرل گل حسن اور چند دوسرے جرنیلوں کے ساتھ جنرل عمر کو بھی  ملی سانحے کا ذمہ دار قراردیاگیا ہے۔ اب زبیر صاحب  نواز شریف کے  نورتنوں میں شامل ہیں تو انکے بھائی عمران خان کے دست راست۔ بڑے گھرانوں کی پانچوں انگلیاں  گھی میں رہتی ہیں۔

زبیرعمر کی ملاقاتوں کے بارے میں موصوف کی اپنی وضاحت اور  ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل بابر افتخار کے بیانات   بھی     مختلف ہیں۔

  • مسلم لیگی رہنما کا کہنا ہے کہ  جنرل باجوہ سے انکے تعلقات  کالج کے زمانے سے ہیں اور جنوری میں جب اسد عمر کے صاحبزادے کے  ولیمے میں انکی ملاقات  ہوئی تو جنرل صاحب  نے ان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی۔ لیکن جنرل  بابر افتخارکا کہنا ہے کہ دونوں ملاقاتیں زبیر صاحب کی خواہش پر ہوئیں
  • زبیر عمر کا ارشار ہے کہ ان ملاقاتوں میں نوازشریف ، مریم نوازیا مسلم لیگ سے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی اور انھوں نے ملکی معیشت اور طرزحکمرانی (گورننس) پر اپنے تحفظات سے دوستانہ انداز میں سپہ سالار کو آگاہ کیا تھا۔
  •  زبیر عمر نے جیو پر گفتگو کرتے ہوئے بہت صراحت کے ساتھ کہا کہ انھوں نے ملاقات کے بارے میں نوازشریف یا مریم نواز  کو نہیں بتایا تھا اور زبیر عمر کی ایک سال کے دوران  نواز شریف سے بات تک نہیں ہوئی۔ لیکن ڈی جی صاحب کا کہنا ہے کہ ان ملاقاتوں میں نوازشریف اور مریم نواز سے متعلق باتیں ہوئیں۔ جنرل بابر افتخار کے مطابق  اگست کے  آخر میں ہونے والی ملاقات میں  ڈی جی ائی ایس آئی بھی  موجود تھے۔ ڈی جی ائی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ان ملاقاتوں میں فوج کے سربراہ نے واضح طور پر کہا کہ قانونی مسائل عدالتوں میں حل ہونگے جبکہ سیاسی مسائل پارلیمان میں حل ہونے چاہئیں اور ان باتوں سے فوج کو دور ہی رکھا جائے۔ فوج کا یہی  موقف اے پی سی کے بعدمسلم لیگ و پیپلز پارٹی کے رہنماوں سے ملاقات کے دوران بھی تھا۔
  • عمران خان کا غیر سیاسی  اور انتہائی غیر لچکدار رویہ انکے سرپرستوں کیلئے مشکل کا باعث بناہوا ہے۔ خانصاحب  سیاسی مخالفین کو ذاتی بلکہ جانی دشمن تصور کرتے ہیں اور ان  لوگوں سے روائیتی  علیک سلیک کے  بھی قائل نہیں، چنانچہ  حزب اختلاف کو قومی امور پر اعتماد میں لینے کیلئے  بی بی مقتدرہ کو خود میز سجانی پڑتی ہے جو عالم بالا میں پسندیدہ نہیں سمجھی جاتی ۔ منچلوں کا خیال ہے کہ اسد عمر اور محمد زبیر کے ذریعے حکومت اور نوازلیگ کے درمیان بیک چینل ڈپلومیسی کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔    

مولانا فضل الرحمان کے آتشیں خطاب اور مقتدرہ کے بارے میں دوٹوک   گفتگو کے بعد نیب نے مبینہ طور پر انھیں طلبی کا پروانہ بھیج دیا ہے اور نوٹس کےمولانا تک پہنچنے سے پہلے ہی اسکی تمام تفصیلات اسد کھرل صاحب نے بول ٹیلی ویژن پر پڑھ کر سنادیں۔اس سے صاف لگ رہا ہے کہ مولانا کو 'معقولیت' پر آمادہ کرنے کیلئے  نیب کے ذریعے کاروائی ڈالی جارہی ہے۔

 دوسری طرف  یہ افواہ بھی گردش کررہی ہے کہ  چھوٹی جماعتوں کے اصرار پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ، پاکستان  جمہوری تحریک یا PDMکی سربراہی کیلئے  مولانا فضل الرحمان  کے نام پر متفق ہوگئے ہیں۔عجیب اتفاق کہ جب بلاول بھٹو کے نانا کے خلاف  متحدہ جمہوری محاذ (UDF)تشکیل دیا گیا تھا تو اسکے قائد فضل الرحمان کے والد مفتی محمود مرحوم اور سکریڑی  جنرل پروفیسر غفور تھے اور یہ دونوں نام عبدالولی خان نے تجویز کئے تھے۔


 

No comments:

Post a Comment