میں اپنی ہر لاش کا مجاور
آج اس عظیم المئے کی 38 ویں برسی ہے جس کے بارے میں اکثر لوگوں کو اب کچھ یاد ہی نہیں بقول حضرت عنائت علی خان
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
مختصراً یہ قصہ کچھ اسطرح ہے کہ 15ستمبر 1982 کو اسرائیلی فوج کے ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں نے مغربی لبنان کے صابرہ اور شاتیلہ فلسطینی پناہ گزین کیمپوں کی مکمل ناکہ بندی کردی جسکے بعد 16 ستمبر کو صبح سویرے اسرائیلی فوج کے چھاپہ مار دستے اور انکے لبنانی اتحادی حزب الکتائب اللبنانیہ المعروف فلانجسٹ کے ہزاروں مسلح سپاہی کیمپوں میں داخل ہوئے اور بلاامتیار مردوں،عورتوں اور بچوں کا قتل عام شروع کردیا گیا۔ ہم نے اسکے عنوان میں ذبیحہ اسلئے لکھا ہے کہ اکثر بچے رائفلوں پر نصب سنگینیں گھونپ کر قتل کئے گئے۔ شیرخوار بچوں کے سرفوجی بوٹوں سے کچل دئے گئے۔ 48 گھنٹے جاری رہنے والی ا س وحشت نے 3500 فلسطینوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جن میں غالب اکثریت ضعیف مردوں، عورتوں اور بچوں کی تھی۔ یادش بخیر دسمبر 1971 میں بنگالی شہزادے بھی اسی طرح نیزوں پر اچھالے گئے تھے
اس قتل عام کی اسرائیل کے سابق وزیراعظم جنرل ایرل شیرون نے بنفس نفیس نگرانی فرمائی جو اسوقت اسرائیل کے وزیردفاع تھے۔ نہتے فلسطینی نونہالوں کا قتل عام اسرائیلی فوج کیلئے اتنا بڑا چیلیج تھا کہ اسکی قیادت کیلئے فوج کے سربراہ جنرل رافیل ایتان، انکے نائب جنرل ابراہیم سلام اور موساد کے سربراہ کیمپ کے باہر موجود تھے۔
حسب توقع اقوام متحدہ نے اسکی 'مذمت' کی اور طویل بحث ومباحثے کے بعد نوبل انعام یافتہ آئرش سیاستدان شان مک برائیڈ Sean Macbrideکی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن قائم کیا گیا جس نے غیر مبہم انداز میں اسکا ذمہ دار اسرائیل کو ٹہریا اور نام لے کر ایرل شیرون کو مجرم گردانالیکن رپورٹ کے تجزئے کے دوران اقوام متحدہ میں لفظ 'نسل کشی' پر اتفاق نہ ہوسکا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے مذمتی قرار داد 37 کے مقابلے میں 123 ووٹوں سے منظور کرلی تاہم متوقع امریکی اور فرانسیسی و برطانوی ویٹو کے پیش نظر معاملہ سلامتی کونسل تک نہ پہنچ سکا
ستم ظریفی کہ اسرائیلی سپریم کورٹ کے سربراہ جسٹس اسحٰق کاہان کی سربراہی میں قائم ہونے والے کمیشن نے دوٹوک انداز میں ایرل شیرون کواس قتل عام کاذمہ دار قراردے کر ان پر مقدمہ قائم کرنے کا حکم دیا لیکن وزیراعظم منیخم بیگن نے انھیں برطرف کرنے سے انکار کردیا جسکے نتیجے میں موصوف استثنیٰ کی چھتری تلے محفوظ رہے۔ 1983 میں آزاد خیال شمعون پیریزکےوزیراعظم بننے پر امید پیدا ہوئی کہ شائد ایرل شیرون کو انصاف کا کٹہرے میں لایا جائے لیکن لبرل پیریز نے مسٹر شیرون سے وزارت دفاع کا عہدہ چھین کر وزارت صنعت و محنت کا قلمدان تھمادیا اور 2001 میں ایرل شیرون ملک کے وزیراعظم بن گئے، باقی رہے مقتول فلسطینی تو
یہ خون ِ خاک نشیناں تھارزقِ خاک ہوا
اب تو ریاض سے راوی تک اسرائیل سے دوستی کا غلغلہ ہے
No comments:
Post a Comment