Friday, September 18, 2020

میں اپنی ہر لاش کا مجاور

آج اس عظیم المئے کی 38 ویں برسی ہے جس کے بارے میں اکثر لوگوں کو اب کچھ یاد ہی نہیں بقول حضرت عنائت علی خان

حادثے سے بڑا  سانحہ  یہ ہوا

لوگ ٹہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

مختصراً  یہ قصہ کچھ اسطرح ہے کہ 15ستمبر 1982 کو اسرائیلی فوج  کے ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں نے مغربی  لبنان کے صابرہ اور شاتیلہ  فلسطینی پناہ گزین کیمپوں کی مکمل ناکہ  بندی کردی جسکے بعد 16 ستمبر کو صبح سویرے  اسرائیلی فوج کے چھاپہ مار دستے اور انکے  لبنانی اتحادی  حزب الکتائب اللبنانیہ المعروف فلانجسٹ  کے ہزاروں مسلح سپاہی  کیمپوں میں داخل ہوئے اور بلاامتیار مردوں،عورتوں اور بچوں کا قتل عام شروع کردیا گیا۔ ہم نے اسکے عنوان میں ذبیحہ اسلئے لکھا ہے کہ اکثر بچے رائفلوں پر نصب سنگینیں گھونپ کر قتل کئے گئے۔ شیرخوار بچوں کے سرفوجی بوٹوں سے کچل دئے گئے۔ 48 گھنٹے جاری رہنے والی ا س وحشت نے 3500 فلسطینوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا  جن میں غالب اکثریت ضعیف مردوں، عورتوں اور بچوں کی تھی۔ یادش بخیر دسمبر 1971 میں بنگالی شہزادے بھی اسی طرح نیزوں پر اچھالے گئے تھے

اس قتل عام کی اسرائیل کے سابق وزیراعظم  جنرل ایرل شیرون نے بنفس نفیس نگرانی فرمائی جو اسوقت اسرائیل کے وزیردفاع تھے۔  نہتے فلسطینی نونہالوں کا قتل عام اسرائیلی فوج کیلئے اتنا بڑا چیلیج تھا  کہ اسکی قیادت کیلئے فوج کے سربراہ جنرل رافیل ایتان، انکے نائب  جنرل ابراہیم سلام اور موساد کے سربراہ کیمپ کے باہر موجود تھے۔

حسب توقع اقوام متحدہ  نے اسکی 'مذمت' کی اور طویل  بحث ومباحثے کے بعد نوبل انعام یافتہ آئرش  سیاستدان شان مک برائیڈ Sean Macbrideکی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن قائم کیا گیا جس نے غیر مبہم انداز میں اسکا ذمہ دار اسرائیل کو ٹہریا اور نام لے کر ایرل شیرون کو مجرم گردانالیکن  رپورٹ  کے تجزئے کے دوران اقوام متحدہ میں لفظ 'نسل کشی' پر اتفاق نہ ہوسکا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے مذمتی قرار داد 37 کے مقابلے میں 123 ووٹوں سے منظور کرلی تاہم متوقع امریکی اور فرانسیسی و برطانوی ویٹو کے پیش نظر معاملہ سلامتی کونسل تک نہ پہنچ سکا

ستم ظریفی کہ  اسرائیلی سپریم کورٹ کے سربراہ جسٹس اسحٰق کاہان کی سربراہی میں قائم ہونے والے کمیشن نے دوٹوک انداز میں ایرل شیرون کواس قتل عام کاذمہ دار قراردے کر ان پر مقدمہ قائم کرنے کا حکم دیا لیکن وزیراعظم منیخم بیگن نے انھیں برطرف  کرنے سے انکار کردیا جسکے نتیجے میں موصوف استثنیٰ کی چھتری تلے محفوظ رہے۔ 1983 میں آزاد خیال  شمعون پیریزکےوزیراعظم بننے پر امید پیدا ہوئی کہ شائد ایرل شیرون کو انصاف کا کٹہرے میں لایا جائے لیکن لبرل  پیریز نے مسٹر شیرون سے وزارت دفاع کا عہدہ چھین کر وزارت صنعت و محنت کا قلمدان تھمادیا اور 2001 میں ایرل شیرون ملک کے وزیراعظم بن گئے، باقی رہے  مقتول فلسطینی تو

یہ خون ِ خاک نشیناں تھارزقِ خاک ہوا

اب تو  ریاض سے راوی  تک  اسرائیل سے دوستی کا غلغلہ ہے


 

No comments:

Post a Comment