Thursday, September 10, 2020

 

افغان امن! کچھ کچھ سحر کے رنگ پَر افشاں ہوئے تو ہیں

افغانستان میں جنگی قیدیوں کا تبادلہ 'تقریبا' مکمل ہونے کے بعد بین الافغان ان مذاکرات اب چند دنوں کی بات محسوس ہورہی ہے۔ ہم نے تقریباً کے عنوان سے احتیاط کا حصار اسلئے باندھا ہےکہ قطر معاہدے کے تحت امریکہ نے جن 5000 طالبان کی رہائی کا وعدہ کیا ہے ان میں سے 4993قیدی رہا ہوچکے ہیں۔ باقی ماندہ 7 افراد کے بارے میں خیال ہے کہ یہ بدنصیب گوانتامو عقوبت کدے کی زینت ہیں اور امید ہے کہ اس تحریر کی اشاعت سے پہلے یہ لوگ رہا ہوچکے ہونگے۔

امریکہ کی افغان پالیسی صدر ٹرمپ نے اپنے جرنیلوں اور وزیروں کے 'قیمتی مشوروں' کو یکسر نظر انداز کرکے تن تنہا ترتیب دی ہے۔2015 میں انتخابی مہم کے آغاز پر صدر ٹرمپ نےبےمقصد افغان عسکری مہم کو صدر بش اور صدر اوباما کی ناکامی قراردیتے ہوئے اسے منظقی انجام تک پہنچانے کا وعدہ کیاتھا۔امیدواروں کے درمیاں مباحثوں میں بھی انھوں نے اپنی مخالف اورصدر اوباما کی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن کو افغان پالیسی کے حوالے سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔انکا کہنا تھا کہ اس جنگ میں امریکی ٹیکس دہندگان کے 70 ارب ڈالر سالانہ پھونکے جارہے ہیں اور بھاری جانی و مالی قربانیوں کے باوجود افغانستان پر 'خون آشام' ملاوں کی گرفت ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط ہوتی جارہی ہے۔

جنوری 2017میں حلف اٹھاتے ہی صدر ٹرمپ نے اپنے جرنیلوں کو 'مکمل فتح' کا ہدف دیا۔ امریکی وزارت دفاع نے افغانستان میں ناکامیوں کا ملبہ پاکستان اور سابق صدراوباما پر ڈال دیا۔ جرنیلوں کا کہنا تھا کہ صدر اوبامانے افغانستان کے فیلڈ کمانڈروں کے تمام اختیارات سلب کرلئے ہیں حتیٰ کہ ڈرون کی ہر اڑان سے پہلے کمانڈرانچیف (امریکی صدر) کی اجازت ضروری ہے اور بندھےہاتھوں سے دہشت گردوں کا مقابلہ ممکن نہیں۔اسی کیساتھ پینٹاگون (امریکی وزارت دفاع) کے اہلکاروں نے پاکستان کے خفیہ  ادارے آئی ایس آئی کو بھی امریکی ہزیمت کا ذمہ دار قرادیا۔ انکا کہنا تھا کہ دوست بنا اسلام آباد، بھاری امداد وصول کرنے کے باوجود طالبان کی درپردہ پشتیبانی کرکے ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپ رہا ہے۔

جرنیلو ں، قومی سلامتی کے مشیروں اور وزارت خارجہ سے گفتگو کے بعد اگست 2017 میں صدر ٹرمپ نے امریکی فوج کے مرکزی اڈے فورٹ مائرمیں سینئر امریکی جرنیلوں اور وزارت خارجہ کے اہلکاروں کے سامنے نئی افغان پالیسی کا اعلان کیا۔ یہ دراصل امریکی عوام سے صدر کا خطاب تھا۔پالیسی کے اعلان سے دودن قبل امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل  پاکستان کی عسکری قیادت سے ملاقات کرچکے تھےجبکہ صدر ٹرمپ کی تقریر سے کچھ دیر پہلے (سابق) امریکی وزیرخارجہ رک ٹیلرسن نے فون پر پاکستانی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو اعتماد میں لیا۔

صدر ٹرمپ نے اپنے خطاب کے آغاز میں کہا 'پاکستان سے متعلق ہمارے انداز فکر (اپروچ) کی تبدیلی امریکہ کی نئی  افغان پالیسی کا اہم ستون ہے'امریکی صدر نے کہا کہ 20دہشت گرد تنظیمیں پاکستا ن میں کام کررہی ہیں اور اسلام آباد ان 'ٹھگوں' کو محفوظ ٹھکانہ فراہم کررہا ہے۔پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانہ فراہم ہوتا دیکھ کر ہم  خاموش نہیں رہینگے۔ پاکستان کو بہت کچھ مل سکتا ہے اگر وہ ہمارا ساتھ دے اور اسکا بہت نقصان ہوگا اگر وہ اسی طرح دہشت گردو ں کو محفوظ ٹھکانہ فراہم کرتا رہا۔نئی اٖفغان پالیسی کے خدوخال بیان کرتے ہوئے امریکی صدر نےکہا سب سے پہلے ہمیں دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنے ہیں۔ ہماری حکمت عملی وقتی مصلحتوں کے بجائے شرائط کی بنیاد پر ہوگی۔ افغانستان میں امریکی کی عسکری قوت میں اضافہ کیا جائیگا اور اضافی تعداد کا تعین زمینی حقائق اور صورتحال کے مطابق ہوگا کہ حکمت عملی کی کامیابی کیلئے رازداری ضروری ہے۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ جنوبی ایشیا کے بارے میں ہماری حکمت عملی کا اہم نکتہ ہندوستان سے مراسم کو مزید استوار کرنا ہے۔ ہندوستان اٖفغانستان کے استحکام کیلئے جو  کچھ کررہا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ ہم (یعنی ہندوستان اور امریکہ) بحر ہند اور بحرالکاہل  کے مشترکہ مفادات پر تعاون جاری رکھیں گے۔ فوج اور وزارت دفاع کو وسیع اختیارات دئے جارہے ہیں اوراب ہمارے کمانڈروں کو ہر فیصلے سے پہلے واشنگٹں کی آشیرواد کی ضرورت نہیں۔ دھمکیوں اور شعلہ افشانی کیساتھ ہی صدر ٹرمپ نے واپسی کا راستہ کھلا رکھتے ہوئے کہا 'ہوسکتا ہے کہ ہم طالبان کو سیاسی تٖصفیے کی دعوت دیں لیکن یہ کب ہوگا اسوقت بتانا حکمت کے خلاف ہے'

اسکے ساتھ ہی پانچ ہزار مزید فوجی افغانستان بھیج دئے گئے۔ آزادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی کمانڈروں نے خوفناک بمباری کاسلسلہ شروع کردیا۔نئی افغان پالیسی کے نفاذ سےچار ماہ پہلے 13 اپریل کو انسانی تاریخ کا سب سے بڑا غیر جوہری بم یعنی GBU-43افغانستان کے صوبے ننگرہار کے ضلع آچن پر داغا چاچکا تھا۔اس  دیو ہیکل بم کا ٹیکنیکل نام Massive Ordnance Air Blast Bomb یا موب ہے لیکن ہلاکت خیزی کی بنا پر اسے 'بموں کی ماں' کہا جاتا ہے۔ 10 ٹن وزنی اور 30 فٹ لمبے اس بم کا قطر 40 انچ ہے جس کے پھٹنے پر دھماکے کی شدت 11 ٹن TNT کے مساوی ہے۔ ہیروشیماپر گرائے جانیوالے ایٹم بم کی تاثیر 15 ٹن TNTکے برابر تھی۔ غیر معمولی حجم اور وزن کی بنا پر اسے روائتی بمبار طیاروں میں نصب کرنا ممکن نہیں لہٰذا اسے C-130مال بردار طیارے سے پھینکا گیا۔

افغانستان کے طول و عرض پر قیامت خیز بمباری سے شہر و دیہات برباد اور قبرستان آباد تو ہوئے لیکن قوت قاہرہ کا بیدریغ استعمال طالبان کو شکست دینے میں ناکام رہا۔ اس تمام عرصے کے دوران صدرٹرمپ افغانستان میں امریکی فوج کی کارکردگی کا خود جائزہ لیتے رہے اور 2018کے آغاز میں صدر ٹرمپ نے اپنے جرنیلوں کو افغانستان سے کوچ کی تیاری اور وزارت خارجہ کو طالبان سے مذاکرات کا حکم دیدیا۔ قطر اور پاکستان کے ذریعے کچھ عرصہ غیر رسمی مذاکرات ہوتے رہے۔ صدر ٹرمپ کو جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ طالبان کوکابل انتطامیہ سے بات چیت پررضامند کرنا ممکن  نہیں تو انھوں نے افغان نژاد امریکی سفارتکار زلمے خلیل زادکو طالبان سے مذاکرات کا ہدف سونپ دیا۔ حسب توقع بات چیت میں سانپ و سیڑھی کے کھیل کی طرح ڈرامہ خیز اتارچڑھاو آیا اور آخر کار 29 جنوری کو امریکہ و طالبان کے درمیان 'معاہدہِ عزمِ امن' پر دستخط ہوگئے۔

معاہدے کے تحت امریکہ نے اس شرط پراپنی فوج کی تعداد 13 ہزار سے گھٹا کر 8600 کرنے کا وعدہ کیا کہ طالبان نیٹو سپاہ کو واپسی کیلئے محفوظ راستہ فراہم کرینگے اور انخلا کے بعد افغان سرزمین امریکہ یا کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ اسی کیساتھ طالبان دیرپاو پائیدار امن اور مستقبل کے بندوبست کیلئے جامع و وسیع البنیاد بین الافغان امن مذاکرات پر رضامند ہوگئے۔معاہدے میں جنگی قیدیوں کی فوری رہائی کا وعدہ کیا گیاتھا۔ بین الافغان مذاکرات کا باقاعدہ آغاز 10 مارچ کو ہونا تھا لیکن قیدیوں کے تبادلے میں تاخیر کی وجہ سے اب تک مذاکرات شروع نہ ہوسکے۔امریکہ نے فوجی انخلا کے بارے میں اپنے وعدے کا پاس کیا اور 4400 نیٹو سپاہی افغانستان سے واپس بلالئے گئے۔ کرونا وائرس کی وجہ سے امریکی فوج کی نقل و حرکت پر پابندی تھی لیکن بروقت  انخلا کے لئے صدر ٹرمپ نے خصوصی  صدارتی استثناجاری کیا۔ گزشتہ دنوں امریکی وزیردفاع نے نومبر کے انتخابات سے پہلے مزید 4000 فوجی واپس بلانے کا عندیہ دیاہے اور اگلے برس کے وسط تک تمام کی تمام امریکی فوج افغانستان سے واپس چلی جائیگی۔

فوج کی تعداد میں کمی اور جنگی قیدیوں کے تبادلے کے بعد بین الافغان مذاکرات کیلئے طالبان کا 21 رکنی وفد قطر پہنچ چکا ہے۔اس وفد کے قائد طالبان کے قاضی القضاۃ مولوی عبدالحکیم حقانی ہیں۔ جناب عباس ستانکزئی حقانی صاحب کی نیابت کرینگے۔ پہلے کہا جارہاتھا کہ وفد کی قیادت ملا عمر کے صاحبزادے ملا یعقوب کو سونپی جارہی ہے۔ ملایعقوب نسبتاً سخت گیرسمجھے جاتے ہیں۔ جسکی وجہ غالباً یہ ہے کہ موصوف طالبان کے عسکری قائد ہیں اور اپنے والد کی وفات کے بعد سے وہ میدان کارزار میں طالبان کی قیادت کررہے ہیں۔53 سالہ مولوی عبدالحکیم طالبان کے امیر مولوی ہبت اللہ اخوندزادہ کے قابل اعتماد ساتھی ہیں۔مولوی صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ قاضی عدالتوں کا قیام ہے۔ یہ عدالتیں مساجد و مدارس میں سماعت کرکے عوام کو مفت اور بروقت انصاف فراہم کرتی ہیں۔طالبان کے بدترین مخالف بھی باہمی تنازعات کے حل کیلئے کورٹ کچہریوں کے بجائے قاضی عدالتوں کا رخ کرتے ہیں۔

ان مذاکرات میں طالبان کیلئے سب سے اہم نکتہ افغانستان کا نظریاتی تشخص ہوگا۔ ملا ہبت اللہ  کہہ چکے ہیں کہ طالبان کو تخت و تاج اور شرکت اقتدار سے کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ صرف اور صرف اسلامی افغانستان چاہتے ہیں۔ غالباً اسی لئے وفد کی قیادت مولوٰی عبد الحکیم کو سونپی گئی ہے کہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے فار غ التحصیل مولوی صاحب علوم شرعیہ کے ماہر ہیں اور گفتگو کے دوران وہ اسلامی ریاست کے بنیادی خدوخال کی تشریح و تنقیح موثر انداز میں کرسکیں گے۔

افغان ذرایع ابلاغ کے مطابق 7 ستمبر کو طالبان وفد کا ابتدائی اجلاس ہوا جس میں سبکدوش ہونے والے سربراہ ملا عبدالغنی برادر نے نئے سربراہ کا خیرمقدم کرتے ہوئے انھیں اب تک ہونے والی گفتگو سے آگاہ کیا۔ اسی کے ساتھ مذاکراتی وفد کے ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم وردک نے بھی اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ 35 برس کے جوانسال وردک صاحب نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے عربی میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ موصوف کو اردو، انگریزی، فارسی، عربی، پشتو کے علاوہ ترکی زبان پر بھی عبور حاصل ہے۔طالبان نے ایک بااختیار وفد کا انتخاب کیا ہے جنکی اکثریت طالبان کی مجلس شوریٰ کے ارکان پر مشتمل ہے۔ایک دوروز میں افغان حکومت کا وفد  قطر پہنچنے والا ہے اور شنید ہے کہ زلمے خلیل زاد بھی قطر کیلئے محو سفر ہیں

کیا یہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہونگے، چاردہاوئیوں سے اپنی خون میں غسل کرتے افغانوں کو کچھ امن میسر آئیگا اور فرحت نصیب ہوگی؟ اس سوال کا جواب اتنا آسان نہیں کہ ماضی میں خانہ کعبہ کے سائے تلے ہونے والے مذاکرات بھی بے نتیجہ رہ چکے ہیں۔ لیکن اس بار صورتحال حوصلہ افزا محسوس ہورہی ہے جسکی وجوہات کچھ اسطرح ہیں:

·        صدر ٹرمپ افغانستان سےامریکی فوج کی جلدازجلد واپسی کیلئے پرعزم ہیں اور وہ ذاتی طور پر ان معاملات کی نگرانی کررہے ہیں

·        امریکی صدر طالبان قیادت سے رابطے میں ہیں اور وہ ایک سے زیادہ مرتبہ مترجم اور مددگار کے بغیر براہ راست ملا عبدالغنی برادر سے بات کرچکے ہیں

·        کابل انتظامیہ کو معقولیت پر مائل کرنے کیلئے صدر ٹرمپ نے گاجر اور چھڑی دیکر وزیرخارجہ مائک پومپیو اور زلمے خلیل زاد کوکابل بھیجا جنھوں نے ڈاکٹر صاحب کو جنگی قیدیوں کی رہائی پر آمادہ کیا۔

·        امن مذاکرات سے ڈاکٹر عبدالغنی کو علیحدہ رکھنے کیلئے علیٰ اختیاراتی قومی مفاہمتی کمیشن یاNational Reconciliation High Commission کی سربراہی ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو سونپ دی گئی ہے۔ اس کمیشن کو مالی وسائل فراہم کرکے خودمختار و بااختیار بنایا جارہا ہے اور امن مذاکرات میں صدر اشرف غنی کا کردار علامتی رہ گیا ہے۔

·        افغان وفد نظریاتی اعتبار سے انتہائی متنوع ہے اور زیادہ تر ارکان غیر ملکی فوجی انخلا کیلئے یکسو ہیں

·        حامد کرزئی اور وفد کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ طالبان کے مخالف تو ہیں لیکن وہ افغان امن کیلئے ملاوں سے مل کر کام کرنے پر امادہ ہیں

·        روسی جہاد میں حصہ لینے والے استاذ عبدالرب رسول سیاف، گلبدین حکمتیار، کمانڈر اسماعیل خان وفد کے اہم ارکان ہیں جو اسلامی افغانستان کے دل وجان  سے حامی ہیں

·        استاذ عبدالکریم خلیلی، علامہ یونس قانونی، علامہ محمد محقق بھی طالبان سے فقہی اختلاف کے باوجود افغانستان کواسلامی جمہوریہ بنانے کے حق میں ہیں

·        جمیعت اسلامی کے صلاح الدین ربانی اور ذبیح اللہ مجددی ان خانوادوں سے ہیں جنھوں نے روسیوں   کو ملک سے نکالنے کیلئے بھاری قربانیاں دی تھیں

·        عبدالرشید دوستم اور طالبان کے درمیان خونریز لڑائی رہی ہے اور طالبان کے سینئر رہنما دوستم کو قصاب شبر غن کے نام سے یاد کرتے ہیں لیکن کہا جارہا ہے کہ ترکی کی کوششوں سے دونوں کے درمیان کشیدگی کچھ کم ہو گئی ہے۔ اب بھی دونوں یکجان و دوقالب تو نہیں لیکن دوستم نے ماضی کو بھلا کر طالبان کیساتھ مل کر کام کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

لیکن ہر چیز مثبت نہیں ،  امن کی راہ میں جگہ جگہ غلط فہمیوں اور بداعتمادی کی بارودی سرنگیں نصب ہیں جو کسی بھی وقت ان کوششوں کو غارت کرسکتی ہیں۔ افغان رہنماوں کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ امریکہ کی جانب سے امن کی کوششوں کے پیچھے تن تنہا صدر ٹرمپ کا ہاتھ ہے۔ ورنہ امریکی فوج، وزارت دفاع، وزارت خارجہ اور امریکی مقننہ کے فوجی انخلا پر شدید تحفظات ہیں۔ خود صدر ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کا قدامت پسند عنصر فوج کی واپسی کو پسپائی اور اعتراف شکست قراردے رہا ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی اور خاص طور سے جو بائیڈن اس انخلا کے سخت خلاف ہیں۔ افغانستان پر خوفناک بمباری اورڈراونے ڈرون  حملے صدر اوباما کا کارنامہ تھا جسکی نائب صدر کی حیثیت سے جو بائیڈن نے مکمل حمائت کی تھی۔ ایبٹ میں اسامہ کی ہلاکت بھی صدر اوباما اور جو بائیڈن کا  مشترکہ انتخابی ڈرامہ تھا۔

افغان سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ کابل حکومت کی پہلی ترجیح مستقل جنگ بندی اور عبوری بندوبست کیلئے شرکت اقتدار کے ایک متفقہ فارمولے پر اتفاق ہے لیکن طالبان اسلامی افغانستان پر اصرار کررہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ مولوی عبدالحکیم اس ضمن میں ریاست کے بنیادی خدوخال اور پاکستان کی قرارداد مقاصد کی طرز پر ایک دستاویز بھی تیار کرچکے ہیں جسے مذاکرات میں پیش کیا جائیگا۔ اسلامی افغانستان پر اتفاق رائے سے پہلے جنگ بندی پر طالبان کی آمادگی مشکل نظر آرہی ہے۔

اس مرحلے پر بنیادی اہمیت وقت کی ہے۔  یعنی وقت کم اور مقابلہ سخت۔صدر ٹرمپ کے ضد کی حد تک سخت روئے کی بناپر اشرف غنی اور افغان امن مخالفین اب تک کامیاب نہیں ہوسکے۔ ان لوگوں کیلئے امیدکی آخری کرن امریکی انتخابات ہیں۔ اسی لئے ڈاکٹر اشرف غنی جنگی قیدیوں کی رہائی کے معاملے کو دیر تک ٹالتے رہے اور اب وہ اپنے لبرل و دین بیزار افغان حلیفوں سے مل کر اس بات کی پوری کوشش کرینگے کہ مذاکرات کو نومبر تک طول دیا جائے۔ اگر اسوقت تک  سب کیلئے قابل قبول معاہدہ نہ ہوسکا اور صدر ٹرمپ انتخاب ہارگئے تو پھر یہ سارا معاملہ غتربود ہوسکتا ہے۔ 

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 11 ستمبر 2020

ہفت روزہ دعوت دہلی 11 ستمبر 2020

ہفت روزہ رہبر سرینگر 13 ستمبر


2020

No comments:

Post a Comment