Tuesday, September 22, 2020

 

فلسطینیوں کے امن مذاکرات

فلسطینی تحریک  آزادی کا سب سے افسوسناک پہلو  انکے اندرونی اختلافات ہیں اور ان اختلافات نے ہزاروں فلسطینیوں کی جان لی ہے۔اختلافات کی بنیاد آزادی سے متعلق تصورات ہیں۔ حماس اخوانی فکر سے متاثر ہے  جسکا خیال ہے کہ عسکری طاقت کے بغیر مذاکرات کی میز پر کچھ بھی حاصل نہ ہوگا  جبکہ پی ایل او فکری اعتبار سے سیکیولر اور قوم پرست گروہ ہے

یاسر عرفات کی  اسرائیلی قیادت  سے براہ راست  ملاقاتوں پر بہت سے فلسطینی خوش نہیں تھے،  ان لوگوں کا خیال تھا کہ اسرائیل مذاکرات میں مخلص نہیں بلکہ چھاپہ مار حملوں سے پریشان تل ابیب  وقت  حاصل کرنا چاہتا ہے اور وقت نے اس خدشے کو درست ثابت بھی کردیا۔ 1993کی واشنگٹن سربراہی کانفرنس اور اسکے بعد اوسلو ملاقاتوں  کا امن کے حوالے سے تو کوئی مثبت نتیجہ نہ نکلا لیکن فلسطینی  پی ایل او PLOاور حماس میں تقسیم ہوگئے۔ 2006کے انتخابات میں حماس اور پی ایل او کی درمیان زبردست مقابلہ ہوا۔ حماس نے 45فیصد ووٹ لے کر 132کے ایوان میں 74نشستیں جیت لیں۔اسماعیل ہانیہ وزیراعظم نامزدہوئے لیکن اسرائیل کے شدید دباو میں آکر صدر محمود عباس نے صرف پندرہ مہینے بعد جناب ہانیہ کو معزول کردیا۔ حکومت کی برطرفی پر  حماس نے شدید ردعمل کااظہار کیا اور فلسطین خانہ جنگی کا شکار ہوگیا

2007سے فلسطین عملا دو حصوں میں تقسیم ہے۔غزہ میں حماس کی حکومت ہے جبکہ دریائے اردن کا مغربی کنارہ پی ایل او کے پاس ہے۔ نیم خودمختار مقتدرہ فلسطین یا PAکی عملداری بھی مغربی کنارے تک محدود ہے۔ دوسری طرف اسرائیل، خلیجی ممالک اور امریکہ نے حماس کو دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے بعد بحرین کے اسرائیل سے تعلقات اور خلیجی ممالک کی تل ابیب سے قربت نے فلسطینیوں میں تنہائی بلکہ محرومی کا احساس پیدا کردیا ہے ۔

اس بحران میں ترکی کھل کر فلسطینیوں کی حمائت کررہا ہے ۔ جناب ایردوان حکمت کے ساتھ حماس اور پی ایل او کو ساتھ لے کر چل رہے  ہیں اور انھیں دونوں گروہوں کا اعتماد حاصل ہے۔ اس اعتماد کا فائدہ اٹھا تے ہوئے ترک صدر دونوں متحارب گروہوں کے باہمی اختلافات ختم کرانے  کی کوشش کررہے ہیں۔ دو روز قبل صدر ایردوان سے فون پر باتیں کرتےہوئے پی ایل او کے سربراہ جناب محمود عباس نے حماس سے براہ راست بات چیت پرضامندی ظاہر کردی ۔

21 ستمبر کو  پی ایل او  کے معتمد عام جناب جبریل رجب کی قیادت میں ایک اعلی اختیاراتی وفد استنبول پہنچ گیا جبکہ حماس کی قیادت  پہلے ہی سے وہاں موجود ہے۔امید ہے کہ پی ایل او اور حماس کے درمیان بات چیت جلد شروع ہوگی۔ ترک صدر پر امید ہیں بات چیت شروع ہوگئی کو دوسرے معاملات بھی درست ہوجائنگے


No comments:

Post a Comment