Tuesday, September 15, 2020

 

سزائے موت  ضروری لیکن پہلے شفاف منصفانہ نظام  

موٹر وے کے حالیہ شرمناک واقعے کے بعد مجرمانہ حملوں کے مرتکب افراد کو سرعام پھانسی کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے اور ضروری قانون سازی کیلئے ایک قرارداد بھی سینیٹ میں پیش کردی گئی ہے۔

 خون کے بدلے خون یا قصاص کو اللہ نے انسانی حیات کیلئے ضروری قرار دیا ہے لہٰذا س سے انکار کا سوال ہی  پیدا نہیں  ہوتا۔ اسی طرح قطع ید یا تازیانوں کی سزا کو وحشیانہ قرار دینے کا تصور بھی ممکن نہیں کہ یہ  سزا ئیں نبی رحمت صل اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں جاری ہوئیں تھیں۔ لیکن  اسلام نے حدود کے اجراکیلئے بہت کڑی شرائط عائد کی ہیں جن میں استثنیٰ کی کوئی گنجائش نہیں۔ ایک ایسےمعاشرے کو   جو سودی نظام  کی شکل میں اللہ سے جنگ کررہا ہواسے شرعی سزائیں نافذکرنے کا کوئی حق نہیں بلکہ موجودہ حالات میں حدود نافذ کرنا شریعت سے مذاق ہوگا۔

اسلام میں  تعزیر سے پہلے ترغیب،  ترہیب و تربیت کا جامع،   مربوط اور موثرنظام ضروری ہے۔ اسی کیساتھ ہر قسم کے شک و شبہہ سے پاک  شفاف عدالتی نظام شرعی حدود کے نفاذ کیلئے بنیادی شرط ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں پولیس کے عام سپاہی سے  لے کرعدالت کے ججوں تک  کسی  کا دامن صاف نہیں۔ کچہریوں کی راہداریوں میں پیشہ ور گواہ  دندناتے پھرتے ہیں ۔ اکثر  جھوٹے گواہوں کی   ججوں   سے بھی بے تکلفی ہے اور انھیں  جھوٹوں کے بیانات پر مقدمات کے فیصلے ہوتے ہیں۔

ناانصافی صرف یہی نہیں کہ کوئی بےگناہ سزا نہ پائے بلکہ ایک ہی جرم میں دو افراد سے مختلف سلوک بھی سراسر ظلم ہے۔ پاکستان کا عدالتی اس لحاظ سے کتنا مہمل ہے اسکے لئے چند تازہ مثالیں کافی ہیں۔

سزایافتہ  نوازشریف  کو عدالت نے علاج کیلئے وقتی طور پر رہا کردیا جبکہ تحریک لبیک کے 90 سالہ رہنما  اور ذیابطیس کے مریض  مفتی محمد یوسف سلطانی کودوائیں تک نہ دی گئیں اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر یہ  بزرگ حافظ آباد جیل میں دم توڑ گئے

کراچی میں رینجرز نے دن دہاڑے ایک نوجوان کو گولی مار کر قتل کیا، جرم ثابت ہونے پر اہلکاروں کو سزائیں سنائی گئیں لیکن سابق صدر ممنون حسین نے مجرموں کی سزائیں معاف کردیں  

کوئٹہ میں ٹریفک پولیس کے ایک وارڈن کو اپنی گاڑی کے نیچےکچلنے والے سیاسی رہنما مجید خان اچکزئی کو ماڈل کورٹ نے باعزت بری کردیا۔ اس روح فرسا واقعہ  کی ویڈیو لاکھوں بلکہ کروڑں افراد نے دیکھی ہے

پرویز مشرف پرحملے کے الزام میں لاتعداد افراد بند کمرے میں مقدمہ چلاکر تختہ دار پر کھینچ دئے گئے حالانکہ جنرل صاحب اب تک زندہ و سلامت ہیں

اسلامی شریعت کے مطابق سزائے موت صرف  صادق و امین لوگوں کی گواہی یا اعتراف کی صورت میں ہی دی جاسکتی ہیں۔ طبی معائینہ، DNAاور فرانزک آڈٹ وغیرہ میں غلطی کی گنجائش موجووہے۔

زینب کے قاتل عمران کو DNAٹسٹ کی بنیاد پر ہی تختہِ دار پر لٹکایا گیا ۔ معلوم نہیں کہ عمران واقعی قاتل تھا یا بے ایمان پولیس سے اصل مجرموں کا بچانے کیلئے  DNAمیں  ہیراپھیری کرکے اس  نوجوان کو پھانسی پر چڑھادیا

ڈی این اے کے  نمونوں میں گڑبڑکے امکانات موجود رہتے ہیں۔ گزشتہ برس امریکی ریاست کیلی فورنیا میں  قتل کے ایک مجرم کو39 سال بعد جیل سے رہا کیا گیاہے۔ اس شخص کو DNAکی بنیاد پر سزا سنائی گئی تھی لیکن جب ریکارڈ کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ DNAٹیسٹ کے دوران خون کے نمونے خلط ملط ہوگئے تھے۔وہ تو خیر رہی کہ اسے پھانسی نہیں دی گئی اسلئے رہا کردیا گیا۔

یہ اطلاع سامنے آتے ہی کیلی فورنیا کے گورنرنے ایک  خصوصی فرمان کے ذریعے سزائے موت پر پابندی  لگادی  ہے۔ ڈیموکریٹک  پارٹی سے تعلق رکھنے والے  51 سالہ  گیون نیوسم  (Gavin Newsom)نے کہا 'اس تصور سے ہی انکی نیند اڑی جارہی کہ کہیں کوئی بے گناہ پھانسی نہ چڑھ جائے' گورنر کا کہنا تھا کہ جب تک ہر قسم کے شک سے پاک نظامِ انصاف قائم نہ ہوجائے سزائے موت کا اجرا سراسر ظلم ہے۔

پاکستان کا بے ایمان میڈیا ہر معاملے کو سیاسی فٹبال بنادیتا ہے جسکے نتیجے میں کسی بھی سنگین واردات کے بعد شدید دباومیں آکر پولیس کے حکام  گرفتاریاں شروع کردیتے ہیں۔ہمارے یہاں تفتیش کیلئے تشدد کے جو وحشیانہ طریقے اختیار کئے جاتے ہیں اس کے ذریعے چوہے سے شیر کے قتل کا اعتراف  بھی کچھ مشکل نہیں۔  شفاف   نظام  انصاف کے قیام تک  سزائے موت  پرپابندی ہونی چاہئے۔ شک  کی بنا پر کسی مجرم کا چھوٹ جانا اس بات سے بہتر ہے کہ جلد بازی میں کوئی بے گناہ موت کے گھاٹ اتاردیا جائے۔



 

No comments:

Post a Comment