Friday, September 4, 2020

افغان امن! اندیشے ، امکانات اور امید کی کرن

قیدیوں کا تبادلہ مکمل ہونے کے بعد خیال ہے کہ بین الافغان مذاکرات کیلئے کابل انتظامیہ کا وفد ہفتے کو قطر پہنچے گا۔ طالبان پہلے ہی سے وہاں موجودہیں۔توقع ہے کہ  زلمے خلیل زاد سے مذکرات میں طالبان وفد کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر ہی بین الافغان مذاکرات میں  طالبان وفد کے قائد ہونگے۔ اس سے پہلے کہا جارہا تھا کہ وفد کی قیادت ملا عمر کے صاحبزادے ملا یعقوب کو سونپی جارہی ہے۔ ملایعقوب نسبتاً سخت گیرسمجھے جاتے ہیں۔ جسکی وجہ غالباً یہ ہے کہ موصوف طالبان کے عسکری قائد ہیں اور اپنے والد کی وفات کے بعد سے وہ میدان کارزار میں طالبان کی قیادت کررہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں ملا عبدالغنی برادر اور ملاعبدالسلام ضعیف میدان سفارتکاری کے شہسوار ہیں۔

یہ دونوں رہنما پاکستان کے 'حسن میزبانی' سے بھی لطف اندوز ہوچکے ہیں۔ عبدالسلام ضعیف پاکستان میں طالبان کے سفیر تھے جنھیں اقوام متحدہ کی مخالفت اور مروجہ سفارتی رکھ کھاو کو روندتے ہوئے ہتھکڑی لگاکر امریکی حکام کے حوالے کیاگیا۔ امریکیوں نے ملا صاحب کو پشاور ائرپورٹ پر برہنہ کرکے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور ملاضعیف کے مطابق پاکستان کے سینئر عسکری حکام طالبان سفیر کی اہانت پر مسکرارہے تھے۔ ملا عبدالغنی برادرکو مبینہ طور پر آئی ایس آئی اور امریکی سی آئی اے کے مشترکہ آپریشن میں کراچی سے گرفتار کیا گیا اور  تفتیش کے دوران انھیں وحشیانہ تشددکا نشانہ بنایا گیا

بہرحال اب تو پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا ہے۔ اعلیٰ ظرف افغان  اپنی اہانت بھولتے تو نہیں لیکن فراخدلی سے معاف کردیتے ہیں۔طالبان کو  پاکستان کی طرف سے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی مہمان نوازی کا پاس بھی ہے

کیا یہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہونگے،  چاردہاوئیوں سے اپنی خون میں غسل کرتے افغانوں کو کچھ امن میسر آئیگا اور فرحت نصیب ہوگی؟

ہم طبیعت کے اعتبار سے تقریباً ہر معاملے میں خوش فہمی کی حد تک پرامید رہتے ہیں اسلئے ہمیں صورتحال حوصلہ افزا محسوس ہورہی ہے جسکی وجوہات کچھ اسطرح ہیں:

·        صدر ٹرمپ افغانستان سےامریکی فوج کی جلدازجلد واپسی کیلئے پرعزم ہیں

·        وہ ذاتی طور پر ان معاملات کی نگرانی کررہے ہیں

·        امریکی صدر براہ راست ملاعبدالغنی برادر سے رابطے میں ہیں

·        جنگی قیدیوں کا تبادلہ مکمل کرنے کیلئے انھوں نے ڈاکٹر عبدالغنی پر بھر پوردباو ڈالااور ڈاکٹر صاحب کو معقولیت پر مائل کرنے کیلئے گاجر اور چھڑی دیکر اپنے وزیرخارجہ اور زلمے خلیل زاد کو انھوں نے کابل بھیجا

·        کرونا وائرس کے نتیجے میں امریکی فوج کی غیر عسکری نقل وحرلت پر پابندی سے افغانستان کو استثنیٰ دیکر  5 امریکی اڈوں کو خالی کرکے  فوج کے بڑے حصے کواٖفغانستان سے نکال لیا گیا۔

·        افغان وفد نظریاتی اعتبار سے انتہائی متنوع ہے اور زیادہ تر ارکان غیر ملکی فوجی انخلا کیلئے یکسو ہیں

·        حامد کرزئی اور وفد کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ طالبان کے مخالف تو ہیں لیکن وہ افغان امن کیلئے ملاوں سے مل کر کام کرنے پر امادہ ہیں

·        روسی جہاد میں حصہ لینے والے استاذ عبدالرب رسول سیاف، گلبدین حکمتیار، کمانڈر اسماعیل خان وفد کے اہم ارکان ہیں جو اسلامی افغان کے دل وجان  سے حامی ہیں

·        استاذ عبدالکریم خلیلی، علامہ یونس قانونی، علامہ محمد محقق بھی طالبان سے فقہی اختلاف کے باوجود افغانستان کواسلامی جمہوریہ بنانے کے حق میں ہیں۔

·        جمیعت اسلامی کے صلاح الدین ربانی اور ذبیح اللہ مجددی ان خانوادوں سے ہیں جنھوں نے روسیوں   کو ملک سے نکالنے کیلئے بھاری قربانیاں دی تھیں

·        عبدالرشید دوستم اور طالبان کے درمیان خونریز لڑائی رہی ہے اور طالبان کے سینئر رہنما دوستم کو قصاب شبر غن کے نام سے یاد کرتے ہیں لیکن کہا جارہا ہے ترکی کی کوششوں سے دونوں کے درمیان کشیدگی کچھ کم ہو گئی ہے۔ اب بھی دونون یکجان و دوقالب تو نہیں لیکن دوستم نے ماضی کو بھلا کر طالبان کیساتھ مل کر کام کرنے کا عندیہ دیا ہے

لیکن ہر چیز مثبت نہیں ،  امن کی راہ میں جگہ جگہ غلط فہمیوں اور بداعتمادی کی بارودی سرنگیں نصب ہیں جو کسی بھی وقت امن کی کوششوں کو غارت کرسکتی ہیں۔ افغان رہنماوں کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ امریکہ کی جانب سے امن کی کوششوں کے پیچھے تن تنہا صدر ٹرمپ کا ہاتھ ہے۔ ورنہ امریکی فوج، وزارت دفاع، وزارت خارجہ اور امریکی مقننہ کے فوجی انخلا پر شدید تحفظات ہیں۔ خود صدر ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کا قدامت پسند عنصر فوجی کی واپسی کو پسپائی اور اعتراف شکست قراردے رہا ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی اور خاص طور سے جو بائیڈن اس انخلا کے سخت خلاف ہیں۔ افغانستان پر خوفناک بمباری اور پاکستان کے سرحدی علاقوں پرڈراونے ڈرون  حملے صدر اوباما کا کارنامہ تھا جسکی نائب صدر کی حیثیت سے جو بائیڈن نے مکمل حمائت کی تھی۔ ایبٹ میں اسامہ کی ہلاکت بھی صدر اوباما اور جو بائیڈن کا  مشترکہ انتخابی ڈرامہ تھا۔

صدر ٹرمپ کے ضد کی حد تک سخت روئے کی بناپر اشرف غنی اور افغان امن مخالفین اب تک کامیاب نہ ہوسکے۔ ان لوگوں کیلئے امیدکی آخری کرن امریکی انتخابات ہیں۔ اسی لئے ڈاکٹر اشرف غنی طالبان کی رہائی کے معاملے کو دیر تک ٹالتے رہے اور اب وہ اپنے لبرل و دین بیزار افغان حلیفوں سے مل کر اس بات کی پوری کوشش کرینگے کہ مذاکرات کو نومبر تک طول دیا جائے۔ اگر  سب کیلئے قابل قبول معاہدہ نہ ہوا اور صدر ٹرمپ انتخاب ہارگئے تو یہ سارا معاملہ غتربود ہوسکتا ہے۔


 


 

 

No comments:

Post a Comment