Sunday, September 13, 2020

ویدرفورڈ!! منزل ہے کہاں تیری؟؟؟

دنیائے تیل کی ملکہ حسن بی بی ویدرفورڈ ایک بارپھر خبروں کی زینت بن گئی ہیں۔ گزشتہ سال جولائی میں ویدر فورڈ کی واجب الادا ذمہ داریوں (Liabilities) کا مجموعی حجم 10 ارب 60کروڑ اور اسکے جملہ اثاثوں کی مالیت صرف 6 ارب 52 کروڑ دڈالر تھی۔ زمین پرلگی اقتصادی ساکھ کی بنا پر کوئی بینک یا مالیاتی ادارہ اسے مزید قرض دینے کو تیار نہیں تھاچنانچہ اپنے بچے کچے اثاثوں کو قرض خواہوں کی یلغارسے بچانے کیلئے ویدرفورڈ نے دیوالیہ ہونے کا اعلان کردیا ۔ اس تحفظ کو امریکہ کی مالیاتی اصطلاح میں Chapter 11 bankruptcy Protectionکہا جاتا ہے۔ جسکے تحت مالیاتی معاملات کی دیکھ بھال کیلئے عدالت ایک مختتم یا تحلیل کار (Liquidator)کا تقرر کدیتی ہےر۔اس تحفظ کے نتیجے میں قرض خواہ قرض کے عوض رکھے رہن کو ضبط نہیں کرسکتے اور نہ ہی کمپنی کے دوسرے اثاثوں کی قرقی ممکن ہے۔۔نقدی سمیت تمام کے تمام اثاثے تحلیل کار کے قبضے میں دیدئے جائتے ہیں اور کمپنی کے اثاثوں کی تقسیم تحلیل کار کی جانب سے طئے شدہ منطقی ترجیح کے مطابق ہوگی جس میں سب سے پہلی ترجیح ملازمین کی تنخواہ اور واجبات ہیں۔
ماضی میں کمپنی کی بہترین کارکردگی کو دیکھتے ہوئے قرض خاہوں نے ویدرفورڈ کے قرض معاف کرکے دو ارب 70 کروڑ ڈالر عطاکردئے تاکہ گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔ اس فراخدلانہ پیشکش کے بعد سرمایہ کاروں کو امید تھی کہ ساہو کاروں کے چنگل سے نجات کے نتیجے میں سانس لینے کی جو مہلت حاصل ہوئی ہےاسکا فائدہ اٹھاتے ہوئے کمپنی اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑی ہوجائیگی۔
قرض کی معافی تلافی کاروائی دسمبر میں مکمل ہوئی اور خیال تھا کہ 31 مارچ کو جب یہ عفیفہ نئی زندگی کی پہلی سہہ ماہانہ رپورٹ پیش کریگی تو سرمایہ کار خوش ہوجائنگے لیکن مرے کو سو درّے کے مصداق اس دوران کرونا وائرس تیل و گیس کی صنعت کو ملیدہ کرچکا تھا اور ویدرفورڈ نے 96 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کے نقصان کا اعلان کردیا۔ اسی کیساتھ قرض کا حجم بھی 7 ارب 69 کروڑ ڈالر ہوگیا۔ دوسری سہہ ماہی میں کمپنی کو 58 کروڑ ڈالر سے زیادہ کا گھاٹا ہوا اور قرض بھی بڑھ کر آٹھ ارب کے قریب ہوگیا۔تباہ حال ویدرفورڈ کی تجوریوں میں صرف 10 لاکھ ڈالر کی نقدی موجودتھی۔ چند ہی ہفتوں میں نقدی ختم ہوگئی ، روزمرہ کا خرچ چلانے کیلئے کمپنی نے مزید قرض لیا اور اب قرض کا بوجھ دوبارہ 10 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔
خبر گرم ہے کہ کمپنی نے دیوالیہ معاملات کے ماہروکلا کی خدمات حاصل کرلی ہیں، منچلے طنز کررہے ہیں کہ اس بار ویدرفورڈ کو چیپٹر 22 کا تحفظ حاصل کرنا پڑیگا۔
اسی کیساتھ کمپنی کے سربراہ (CEO) مارک مک کالم نے اچانک اپنے عہدے سے استعفےٰ دے دیا۔ موصوف ہیلی برٹن Halliburtonکے مالیاتی سربراہ یا CFOتھے اور جب انھوں نے اپریل 2017 میں ویدرفورڈ کے بانی ڈاکٹر برنارڈ ڈینر کی جگہ کمپنی کی باگ ڈور سنبھالی تو بڑی امید تھی کہ حساب کتاب کے شعبے میں انکی کئی دہائیوں کی ریاضت ویدرفورڈ کی ڈوبتی کشتی کو ایک بار پھر رواں دواں کردیگی لیکن موصوف ایک عرصے تک تنظیم نو کے نام پر اکھار پچھاڑ میں مصروف رہے۔ پرانے لوگوں کو نکال کر ہیلی برٹن کے مسیحا بھرتی کئے گئے لیکن نقصان پر تقصان کے نتیجے میں کمپنی پر قرض بڑھتا رہا۔بدنصیب ویدرفورڈ ایسے ہی تجربے سے چند سال پہلے بھی گزری تھی جب بہتری کیلئے شلمبرژے کے لوگوں کو کلیدی عہدے پر رکھا گیا
اسی دوران کمپنی دیوالیہ کی ذلت سے گزری اور اب لگتا ہے کہ شائد 6 ماہ کے اندر ویدرفورڈ ایک بار پھر ہاتھ کھڑے کردے۔ مارک مک کالم صاحب نےایسے وقت میں خداحافظ میں کہا ہے جب 12 اکتوبر کو کمپنی کا سالانہ اجلاس ہورہاہے۔انتہائی خراب کارکردگی کی بنا پر حصص یافتگان سخت غصے میں ہیں اور انکے جانب سے کلیدی تبدیلیوں کو مطالبہ کیا جارہا ہے۔
تازہ اعلان کے مطابق شری گیریش سالیگرام (Girish Saligram) کو نیا سی ای او مقرر کیا گیا ہے جو 12 اکتوبر سے اپنا عہدہ سنبھالیں گے۔ سالیگرام صاحب گیس پراسیسنگ کے کاروبار سے وابستہ ادارے Exterran Corporationکے سربراہ ہیں۔ گویا موصوف کا کھدائی اور آزمائش و پیمائش یا Upstream کا کوئی تجربہ نہیں بلکہ یہ ریفائنری، پائپ لائن اور تطہیر و تقسیم کے ماہر ہیں۔
دیکھنا ہے کہ سالیگرام جی کیا تبدیلی لاتے ہیں۔ اسوقت سب سے اہم بات تو کمپنی کو دوسرے دیوالئے سے بچاناہے۔اس بات کا ڈر موجود ہے کہ اگردیوالئے کی ثانوی درخواست کاتجزیہ کرتے ہوئے تحلیل کار اس نتیجے پر پہمچے کہ ادارے کا احیا ناممکن ہے تو پھر ملازمین کےجائز دعووں ی تکمیل کے بعد باقی اثاثے قرض خواہوں میں تقسیم کردئے جائینگے۔
بے پناہ قرض ، بد انتظامی ، نت نئے تجربات اور ترجیحات کے باب میں فاش غلطیوں کے اعتبار سے ویدرفورڈ اور پاکستان کے حالات بڑی حد تک ایک جیسے ہیں۔ 2014 تک ویدفورڈ 50 ارب ڈالر مالیت کی کمپنی تھی جسکا منافع اور شرح نمو پر اسکےمسابقت کار رشک کرتےتھے۔انھیں دنوں تیل کی قیمتوں میں گراوٹ کا آغاز ہوا جس سے پوری صنعت خاص طور سے خدمت رساں ادارے بری طرح متاثر ہوئے۔ بدقسمتی سے ویدرفورڈ کی کارپوریٹ قیادت اس بحران کا بروقت اداراک نہ کرسکی اور مسائل سے نبٹنے کیلئے تدبر کےساتھ دوررس فیصلوں کے بجائے شعلے سردکرنے یا fire fightingکی حکمت عملی اختیار کی گئی جسکے نتیجے میں مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواکی اور 2019 میں اس ادارے نے دیوالیہ ہونے کا اعلان کردیا۔ اب ایک اور دیوالیہ نوشتہ دیوار محسوس ہورہا ہے۔دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو۔



 

 

No comments:

Post a Comment