Thursday, September 17, 2020

افغانستان اور مشرق وسطیٰ!! امن منصوبہ یا انتخابی حکمت عملی؟

بین الافغان امن مذاکرات اور اسرائیل سے سفارتی تعلقات کیلئے مسلم ممالک پر صدر ٹرمپ کا زبردست دباو آجکل عالمی افق پر بے حد نمایاں ہے۔ صدر ٹرمپ کے اخلاص پر شبہہ کی کوئی وجہ نہیں لیکن افغانستان کیلئے صدر کے خصوصی نمائندے جناب زلمے خلیل زاد کا یہ  انکشاف کہ افغان امن معاہدے کاحتمی فیصلہ صدارتی انتخاب کے بعد ہوگا، تحفظات کو جنم دے رہا ہے۔ یہ بات جناب خلیل زادنے اسوقت کہی جب قطر سے مواصلاتی اخباری کانفرنس کے دوران واشنگٹن کے ایک صحافی نے ان سے دریافت کیا کہ اگر 3 نومبر کو جو بائیڈن امریکہ کے صدر منتخب ہوگئے تو کیا خلیل زاد صاحب نئی انتظامیہ کا حصہ بن کر افغان امن مشن کو جاری رکھیں گے۔ اس پر صدر ٹرمپ کے خصوصی نمائندے نے کہا کہ وہ پرامید ہیں کہ 3 نومبر تک اٖفغان امن کے حوالے سے خاصی پیشرفت ہوچکی ہوگی لیکن حتمی فیصلہ انتخابات کے بعدہی ہوگا۔ اگر صدر ٹرمپ دوسری مدت کا انتخاب جیت جاتے ہیں تب تو انتظامیہ کے تسلسل کی بنا پر مذاکرات میں خلل نہیں پڑیگا لیکن اگر ان انتخابات میں جو بائیڈن کامیاب ٹہرے تو مذاکرات تعطل کا شکار ہوسکتے ہیں۔ انتخاب ہار جانے کے بعد بھی جو بائیڈن کے حلف اٹھانے تک ڈانلڈ ٹرمپ ملک کے آئینی صدر رہینگے لیکن امریکہ میں شکست خوردہ صدر بقیہ مدت کیلئے غیر موثر و مفلوج بطخ (Lame duck)کہلاتا ہے یعنی اخلاقی اعتبار سے اسے کلیدی فیصلے کرنے کا اختیار نہیں۔ جو بائیڈن صدر ٹرمپ کی افغان پالیسی سے متفق نہیں اور بہت ممکن ہے کہ صدر منتخب ہونے کی صورت میں وہ بساط لپیٹ کر نئے باب کا آغاز کردیں۔ جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے عرض کیا تھا کہ انتخاب جیتنے کیلئے صدرٹرمپ خارجہ پالیسی کے حوالے سے کچھ چشم کشا پیشرفت چاہتے ہیں تاکہ وہ ایک مدبر سیاست دان بن کر ابھریں۔ افغانستان سے فوجوں کی واپسی انکے 2016 کے منشور کا حصہ ہے۔ انکا کہنا تھا کہ صدر بش نے بےمقصد جنگ شروع کی جسے صدر اوباما اور نائب صدر جو بائیڈن نے امریکہ کیلئے دلدل بنادیا لیکن  وہ اپنی گفتگو و معاملہ سازی کی خداداد صلاحیتوں کی بناپر متحارب گروہوں کو سب کیلئے قابل قبول بندوبست پر رضامند کرکے اپنی فوج کو وہاں سے باعزت طور پر نکال لینگے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے ڈاکٹر اشرف انتطامیہ پر دباو ڈال کر جس طرح قطر میں مذاکرات کی میز سجائی ہے اس سے تو لگ رہا تھا کہ امریکی صدر انتخابات سے پہلے اس معاملے کو منطقی انجام  تک پہنچادینا چاہتے ہیں لیکن زلمے خلیل زاد کے بیان سے  محسوس ہوتا ہے کہ انتخابی شکست کی صورت میں صدر ٹرمپ شعلوں میں لپٹا افغانستان جو بائیڈن کے حوالے کرکے گھر کی راہ لینگے۔

اگر زلمے خلیل زاد کے بیان کو نظر انداز کردیا جائے تو بین الافغان مذاکرات کی صورتحال فی الحال امید افزا ہے۔ مذاکرات کے آغاز کی تاریخ بھی بڑی تاریخی نوعیت کی ہے کہ 12 ستمبر 2001 کو امریکی صدر بش نے افغانستان کے خلاف اعلان جنگ کیا اور اسکے ٹھیک 19 سال بعد 12 ستمبر 2020 کو امریکی وزیرخارجہ مائک پومپیو نے (سابق دہشت گرد) ملا عبدالغنی برادر کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر افغانستان میں قیام امن کیلئے امریکی عزم کا اظہار کیا۔ ستم ظریقی کہ 11 ستمبر کو دہشت گردی کا واقعہ المعروف نائن الیون کا ظہور ہوا اور اسکے صرف 24 گھنٹے بعد ابتدائی تحقیق سے بھی پہلے امریکہ نے افغانستان پر حملے کا اعلان کردیا۔ اسوقت تک حملہ آوروں کی شناخت تو دور کی بات انکی تعداد کا تعین بھی نہیں ہوا تھا۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق جو 19 دہشت گرد اس خون آشامی کے ذمہ دار ٹہرائے گئے، ان میں سے ایک بھی افغانی نہ تھا۔یہ وقت اس موضوع پر بات کیلئے مناسب نہیں کہ دنیا بھر کے افغان دوست ان مذاکرات کی کامیابی اور اسکے نتیجے میں ایک پرامن،مستحکم و خوشحال افغانستان کیلئے دعا گو ہیں۔

امن مذاکرات کی افتتاحی تقریب سے امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو، قطر کے وزیرِ خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی، طالبان کے نائب امیر ملا عبد الغنی برادر، افغانستان کی قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل کے سربراہ ڈاکٹرعبد اللہ عبد اللہ سمیت کئی شخصیات نے خطاب کیا۔تاریخی اجلاس میں ہندوستان و پاکستان کے حکام بھی موجود تھے۔ بات چیت کا آغاز کرتے ہوئے قطری وزیرخارجہ نے امید ظاہر کی کہ  فریقین ہر طرح کی تقسیم سے بلند ہو کر ایک ایسے معاہدے تک پہنچیں گے جس میں کوئی فاتح ہو نہ مفتوح اور حقیقی فتح  افغان عوام کی ہونی چاہئے۔ امریکی وزیرِ خارجہ نے طالبان کو تشدد اور کابل انتطامیہ کو کرپشن ترک کرنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے سیاسی نظام کے حوالے سے امریکہ کی کوئی ترجیح نہیں اور امریکی قوم افغان عوام کے فیصلے کا احترام کریگی۔ کابل انتطامیہ کے عبد اللہ عبد اللہ  نے انسانی بنیادوں پر فوری جنگ بندی پر اصرارکیا۔ طالبان کے نائب امیر ملا عبد الغنی برادر نے اپنے خطاب میں ملک میں اسلامی نظام رائج کرنے پر زور دیا۔ملا صاحب کا کہنا تھا کہ معاہدہ کرتے ہوئے اسلام کو مدِ نظر رکھا جائےاور دین مبیں کو ذاتی و گروہی مفادات پر ترجیح دی جائے۔

افتتاحی اجلاس میں افغان حکومتی وفد کی اولین ترجیح جنگ بندی تھی، لیکن طالبان نے موقف اختیار کیا کہ فائربندی سے پہلے وہ عوامل ختم کرنے ضروری ہیں جس کی وجہ سے جنگ جاری ہے۔ملا برادر نے کہا کہ ہم بھی جنگ بندی چاہتے ہیں۔ لیکن جنگ بندی کافی نہیں بلکہ جنگ و خونزیری ختم ہونی چاہئے۔ ملا صاحب نے کہا کہ سب سے اہم نکتہ افغانستان کا نظام ہے۔ اسلامی افغانستان پر مخلصانہ اتفاق رائے کے بعد ہی جنگ ختم ہوگی۔

باقاعدہ مذاکرات سے پہلے 13 ستمبر کی شام طالبان اور کابل انتظامیہ کے رابطہ گروپ کا اجلاس ہوا جس  میں ایجنڈے ،اجلاس کے دورانیے اور دوسری تفصیلات طئے کے گئیں۔رابطہ  اجلاس میں کابل انتظامیہ کی جانب سے معصوم استناکزئی  اور محترمہ فوزیہ کوفی سمیت 14ارکان نے شرکت کی جبکہ  طالبان کی جانب سے  عباس استناکزئی کی سربراہی میں  5 ارکان شریک ہوئے۔ حسن اتفاق کہ کابل وفدکے سربراہ اور طالبان وفد کے نائب سربراہ دونوں کا تعلق پشتونوں کے استناکزئی قبیلے سے ہے۔

رابطہ اجلاس کی روداد بیان کرتے ہوئے  طالبان کے ترجمان ڈاکٹر نعیم  وردک نے کہا 'افتتاحی اجلاس کی طرح آج بھی کابل انتظامیہ نے فوری جنگ بندی پر اصرار کیا لیکن طالبان نے اپنا موقف دہرایا کہ اسلامی نظام حکومت پر اتفاق سے پہلے طالبان تلواریں نیام میں نہیں ڈالیں گے'۔طالبان رہنما عبدالسلام حنفی نے کہا کہ فائربندی کافی نہیں۔ جنگ ختم ہونی چاہئے۔ وفد کے سربراہ عباس استناکزئی نے اجلاس کو بتایا کہ طالبان نے چند وزارتوں یا شرکت اقتدار کیلئے ہزاروں مجاہد قربان نہیں کئے۔اسلامی افغانستان ہماری منزل ہے جسکے کیلئے ہم مزید قربانی دینے کو تیار ہیں ۔طالبان وفد کے سربراہ کا کہنا تھا کہ گفتگو خوشگوار ماحول میں ہوئی اور دونوں فریق نے ایک دوسرے کا موقف تحمل اور کھلے دل سے سنا۔خیال ہے کہ اگلے اجلاس میں طالبان وفد کے قائد مولوی عبدالحکیم حقانی اسلامی افغانستان کا آئینی تعارف پیش کرینگے۔

امن مذاکرات کے ساتھ قطر میں صحافتی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں۔ دنیا بھر کے میڈیا کے ساتھ متنوع افغان میڈیا وہاں موجود ہے۔ دونوں وفود کے ارکان کو دلچسپ و دوٹوک اور کسی حد تک سخت سوالات کا سامنا ہے۔ طالبان کے ترجمان ملا سہیل شاہین اور ڈاکٹر نعیم وردک بہت خندہ پیشانی سے سخت سوالات کا جواب دے رہے ہیں۔ افتتاحی اجلاس کے فوراً بعد جب طالبان سے پوچھا گیا کہ 'انکے 21 رکنی وفد میں ایک بھی خاتون شامل نہیں، کیا ملا خواتین کو اپنے برابر نہیں سمجھتے تو ڈاکٹر وردک نے مسکراتے ہوئے کہا 'کابل انتظامیہ کے 48 رکنی وفد میں صرف 5 خواتین ہیں،  کیا اسکا مطلب یہ لیا جائے کہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ خواتین کو مردوں کا دسواں حصہ سمجھتے ہیں'۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وفد میں خواتین کی شمولیت  سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ خواتین کے حقوق کی بات کی جائے۔ وراثت میں انکے حصے کو آئینی تحفظ دیا جائے، خواتین کو کام کرنے کی اجازت کافی نہیں۔ ہم خواتین کے کام کی جگہ کو محفوظ اور نسوانی عزت و وقار اور اقدار کے مطابق بنائینگے۔  اسلامی عقائد و اقدار کے عین مطابق افغان بچیوں کو  پہلی جماعت سے لے کراعلیٰ ترین تعلیم کا موقع فراہم کیا جائیگا۔جب بی بی سی پشتو کی محترمہ شازیہ حیا نے  سہیل شاہین سے پوچھا کہ کیا خاتون صحافی طالبان رہنماوں سے انٹرویو کر سکیں گی؟ تو شاہین صاحب نے کہا کہ اگر خواتین صحافی باوقار لباس میں ہوں تو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔

افغان وفد کے ترجمان نادر نادری کو بھی سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک صحافی نے نادری صاحب سے پوچھا ' آپ لوگ کہتے تھے کہ طالبان کو پنجابی مشورے دیتے ہیں، کیا طالبان وفد میں کوئی پنجابی یاپاکستانی بھی ہے؟' نادر نادری نے بہت متانت سے کہا کہ یہ وقت متازعہ امور کو اٹھانے کا نہیں۔ ہم یہ بحث کرنے یہاں نہیں آئے، ہم ساتھ بیٹھ کر تمام تنازعات کا منصفانہ حل تلاش کرنے قطر آئے ہیں۔ ایک صحافی نے نادری صاحب کو یاددلایا کہ آپ ان لوگوں سے مذاکرات کرنے آئے ہیں جن کے گھروں اور کھیتوں پر آپ 19 سال امریکہ سے بمباری کرواتے رہے تو انھوں نے کہا کہ میرے بھتیجے کو طالبان نے ہلاک کیا ہے لیکن جنگ میں یہی کچھ ہوتا ہے اسی لئے ہم یہاں جنگ ختم کرنے آئے ہیں۔

باقاعدہ مذاکرات کا آغاز پیر کو ہونا تھا لیکن رابطہ اجلاس میں تاخیر کے سبب اب خیال ہے کہ دونوں فریق منگل یا بدھ کو بات چیت کا باقاعدہ آغاز کرینگے جو امن مذکرات کا اصل، جانگسل اور سخت ترین مرحلہ ہوگا۔ کہا جارہاہے کہ طالبان کو فائربندی پر راضی کرنے کیلئے امریکہ کابل انتظامیہ سے ان طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کی درخواست کررہا ہے جنکے نام امریکہ طالبان معاہدے میں شامل نہیں تھے۔ افغان امن ایک انتہائی مشکل مرحلہ ہے لیکن ابتدائی اجلاس میں فریقین نے جس لچک اور 'حسن سماعت' کا ثبوت دیا ہے اس سے کچھ امید بندھتی نظر آرہی ہے۔

اب کچھ گفتگو صدر ٹرمپ کے معاہدہ ابراہیم پر جو افغان امن کی طرح صدرٹرمپ کی انتخابی مہم کا ایک اور اہم ستون ہے۔ امریکی مقتدرہ میں اسرائیلی ترغیب کار (Lobby)  بہت سرگرم اور میڈیا پرانکے اثرات بہت گہرے ہیں۔اسرائیل مخالف کا ٹھپہ لگ جانے کے بعد امریکی ایوان سیاست میں ثبات و قرار بہت مشکل ہے۔ صدر ٹرمپ کی مشرق وسطٰی پالیسی کے معمار انکے جوانسال داماد جیرڈ کشنر اور اسرائیل میں امریکہ کے سفیر ڈیوڈ فریڈمین ہیں۔یہ دونوں حضرات راسخ العقیدہ یہودی ہیں۔ جیرڈ کشنر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور انکے اماراتی ہم منصب محمد بن زید کے قریبی احباب میں شمار ہوتے  ہیں۔

13 اگست کو متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کے ساتھ ہی سعودی عرب نے اسرائیلی طیاروں کیلئےاپنی فضائی سرحدیں کھولدیں اور ساتھ ہی کہا جانے لگا کہ جلد ہی  بحرین، پاکستان، کوئت، سعودی عرب،عمّان  اور سوڈان بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے والے ہیں۔ لیکن پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے دوٹوک اعلا ن کیا کہ 'اگر تمام اسلامی دنیا اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کرلے تب بھی پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کریگا'۔ دوسری طرف سوڈان کی  حکومت نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ یہ فیصلہ منتخب حکومت ہی کرسکتی ہے اور خرطوم کی عبوری حکومت کو اس قسم کے فیصلے کا اختیار حاصل نہیں۔ سعودی عرب، کوئت اور عمّان کی طرف سے بھی خاموشی رہی۔ تاہم صدر ٹرمپ بار بار کہتے رہے کہ تمام خلیجی اور زیادہ تر مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے والے ہیں۔

4 ستمبر کو امریکہ کے دورے پر آئے یورپ کے مسلم اکثریتی ملک کوسووو کے وزیاعظم عبداللہ ہوتی نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان کردیا اور اسی نشست میں کوسوووا ور بوسنیا کے ہزاروں مسلمانوں کو ذبح کرنے والے سربیا نےاسرائیل میں اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا وعدہ کیا جس پر ہوتی صاحب نے فرمایا' کوسووو اپنا سفارتخانہ بیت المقدس میں ہی  کھولے گا۔ یعنی کوسووو بیت المقدس میں سفارتخانہ قائم کرنے والا پہلا مسلم اکثریتی ملک ہوگا۔

اسکے ایک ہفتے بعد 11 ستمبر کو صدر ٹرمپ نے انکشاف کیا کہ اسی  ہفتے ایک اور عرب ملک اسرائیل کو تسلیم کرنے والا ہے۔ صدر ٹرمپ نے فخر سے کہا کہ 19 سال قبل آج ہی کے دن امریکہ دہشت گردی کا نشانہ بنا تھا اور  نائن الیون سے جنم لینے والی نفرت کا اس سے موثر کوئی اور ردِ عمل نہیں ہو سکتا۔دوسرے ہی دن بحرین کے بادشاہ حمد بن عیسیٰ بن سلمان الخیلفہ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے فون پر بات کرتے ہوئے اسرائیل سے دوستی گانٹھ لی۔

بحرین کے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے داماد اول نے کہا کہ معاہدہ ابراہیم کے بعد عرب و مسلم ممالک فلسطینی مفادات سے بالاتر ہوکر اپنے قومی مفاد کے مطابق فیصلے کررہے ہیں۔ گویا معاہدہ ابراہیم کا کلیدی نکتہ فلسطینیوں کو سفارتی و سیاسی طور پر تنہا کرنا ہے۔ ایک سال پہلے سعودی عرب کی تجویز پر عرب لیگ نے فیصلہ کیا تھا کہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام سے پہلے عرب ممالک اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم نہیں کرینگے۔ اعلامئے میں مشرقی بیت المقدس کو فلسطین کا دارالحکومت قراردینےکے ساتھ 1967 کی جنگ میں قبضہ کئے گئے مقبوضہ عرب علاقوں سے اسرائیلی انخلا کی شرط بھی عائد کی گئی تھی۔

 متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات اور فضائی حدود چوپٹ کھول کر اسرائیل کیلئے سعودی مہرومحبت کے اشاروں سے فلسطینی خود کو دیوار سے لگا محسوس کررہے ہیں۔ اسرائیل اور مصر کی ناکہ بندی کا شکار غزہ کے شہری اور  اسرائیلی فوج و قابض آبادکاروں کے نرغے میں غرب اردن کے نہتے نوجوان فی الحال تو مزاحمت جاری رکھنے کیلئے پرعزم نظر آرہے ہیں لیکن عرب و مسلم ممالک کی پشت پناہی سے محروم ہوکر انکے لئے لمبے عرصے تک  ڈٹے رہنا آسان نہ ہوگا۔   

امارات کے بعد بحرین اور کوسووو کے اسرائیل سے تعلقات صدر ٹرمپ کی زبردست سفارتی کامیابی قرار دی جا رہی ہے۔ جسکا انھیں انتخابات میں یقیناً فائدہ ہوگا۔ امریکی یہودیوں کی غالب اکثریت ڈیموکریٹک پارٹی کی حامی ہے لیکن اس پیشرفت سے اسرائیل کے حامی یہودی رائے دہندگان صدر ٹرمپ کی طرف مائل ہورہے ہیں۔صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے غرور سے چور اپنے مخصوص لہجے میں صدر ٹرمپ نےکہا کہ ان سے پہلےمشرق وسطیٰ کی بری حالت تھی تاہم اب امن کی منزل قریب آچکی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ فلسطینی بھی اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہتے لیکن انکی قیادت جرات سے محروم ہے۔

ادھر ناروے کے قدامت پسند رکن پارلیمان   Christian Tybring-Gjeddeنے  امریکی صدر کو 2021کے نوبل امن انعام کیلئے نامزد کردیا۔ کمیٹی کے نام اپے خط میں فاضل رکن پارلیمان نے مشرق وسطی امن کیلئے “گرانقدر” خدمات سر انجام  دینے پر صدر ٹرمپ کو اس انعام کا مستحق گرداناہے۔نارویجین رکن پارلیمان کا کہنا ہے کہ معاہدہ ابراہیم صدرٹرمپ کا عظیم الشان کارنامہ ہے۔ یادش بخیر اسرائیل کو تسلیم کرنے پر مصر کے سابق صدر انوار السادات کو بھی نوبل امن انعام دیا گیا تھا

جہاں صدر ٹرمپ کو انتخابات کا سامنا ہے تو جناب نیتن یاہو بھی داخلی محاذ پر مشکل میں ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم  پر بے ایمانی و بدعنوانی کے الزام میں مقدمہ چل رہا ہے۔ انکے مخالفین Crime Ministerکے کتبے اٹھائے انکی سرکاری رہائش گاہ کے باہر دھرنا دئے بیٹھے ہیں۔ کرونا وائرس کے ظہور جدیدسے ملکی معیشت شدید دباو میں ہے ۔ لاک ڈاون کے نتیجے میں صومعات کی بندش پر انکے مذہبی اتحادی سخت ناراض ہیں۔ جیسے یہ کامرانیاں صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کیلئے طاقت کا ٹیکہ ثابت ہورہی ہیں ویسے ہی عظیم الشان سفارتی کامیابی بحران میں مبتلااسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کیلئے بھی تازہ ہوا کے خوشگوار جھونکے سے کم نہیں۔

بحرین سے سفارتی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے بن یامین نیتن یاہو نے کہا کہ مصر کے بعد دوسرے عرب  ملک (اردن) سے امن  معاہدہ کرنے میں 5 سال جبکہ تیسرے عرب ملک (امارات) سے معاہدہ 26 سال بعد ہوا لیکن ہم سے دوستی کرنے والے تیسرے اور  چوتھےعرب  ملک کے درمیان صرف 29 دن کا وقفہ ہے۔ یہ کہتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم کا چہرہ خوشی سے تمتمارہا تھا۔

ہفت روزہ امت کراچی 18 ستمبر


2020

 

2 comments:

  1. امن باہر سے‌نہیں تھوپا جا سکتا ہے امن کا عمل داخلی ہے اس کے اہم اجزاء معاف کرنا اور پھر کینہ اور نفرت کو دل سے بالکل نکال دینا ہی کارگرہےآ۔۔صرف زبانی معافی معافی نہیں ہوتی لازمی عمل دل سے کینہ اور نفرت کو نکالنا ہے۔

    ReplyDelete