رنگ لائیگی ہماری فاقہ مستی ایک دن
اخباری اطلاعات کی مطابق عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) قرض کی تیسری قسط کے اجرا سے پہلے بجلی، گیس اور یوٹیلیٹی اسٹورز سے رعائت (سبڈی) ختم کرنے کی شرط نرم کرنے پڑ آمادہ نہیں۔
گزشتہ برس جولائی میں آئی ایم ایف نے پاکستان کی تباہ حال معیشت کو سہارا دینے کیلئے 6 ارب ڈالر کا قرض منظور کیا تھا۔ معاہدے کے تحت ایک ارب ڈالر کی پہلی قسط فوری طور پر جاری کردی گئی جبکہ اگلے39 ماہ کے دوران قسطوں کی شکل میں 5 ارب ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ قرض کڑے مالیاتی نظم و ضبط سے مشروط کیا گیا ہے۔روپئے کی قدر میں کمی،سرکاری اداروں کی نجکاری اور رعائتوں کے بتدریج خاتمے کے ساتھ مجموعی ٹیکس کا ہدف 55سوارب روپئے طئے کیا گیا۔ وفاقی ٹیکس ادارہ اسوقت 3900ارب روپئے ٹیکس جمع کرتا ہے۔ آئی ایم ایف کو شکائت ہے کہ متمول پاکستانی ٹیکس نہیں دیتے۔ آئی ایم ایف کے قائم مقام سربراہ ڈیوڈلپٹن نے قرض کی منظوری کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھاکہ شرائط پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے سہہ ماہی جائزہ اجلاسوں کے علاوہ ہر چھ ماہ بعد پاکستان کی معاشی صورتحال پرتفصیلی بحث ہوگی۔
پاکستان نے روپئے کی قدر میں بھاری کمی اوربجلی، پیٹرول و گیس کے نرخوں میں ہوشربا اضافہ کرکے آئی ای ایف کی شرائط پوری کردیں چنانچہ دسمبر 2019میں 45 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی دوسری قسط جاری کردی گئی
قرض کی تیسری قسط اس سال جون میں جاری ہونی تھی لیکن کروناوائرس کی وبانے دنیا بھر کی معیشتوں کو بھرکس نکال دیا۔اپریل میں وبا سے نبٹنے کیلئے آئی ایم ایف نے بطورِ ہنگامی امداد 1 ارب 39 کروڑڈالر آسان شرائط پرپاکستان کو دیدئے اور قرض کی تیسری قسط روک لی گئی۔
اب 45 کروڑ ڈالر کی تیسری قسط کیلئے مذاکرات جاری ہیں اورخبر گرم ہے کہ آئی ایم ایف جن کڑی شرائط پر اصرار کررہا ہے ان پر وہ وزیراعظم عمران خان کو شدید تحفظات ہیں۔آئی ایم ایف چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کومعطل یا سست کرنے پر مصرہے۔ اسی طرح نیا پاکستان ہاوسنگ پراجیکٹ پر 30 ارب روپئے کی مجوزہ سبسڈی بھی عالمی ساہو کاروں کو پسند نہیں۔آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ بجلی، گیس اوریوٹیلیٹی اسٹورز کی مد میں تمام رعائتیں فوری طور پرختم کردی جائیں جبکہ اسلام آباد کا کہنا ہے کہ کرونا سے تباہ حال لوگوں پر مہنگائی کا نیا بم گراناممکن نہیں چنانچہ سہہ ماہی جائزے کا پہلا دور بےنتیجہ ختم ہوگیا۔ تاہم غیر رسمی گفتگو جاری ہے اور امید ہے کہ باقاعدہ مذاکرات دوباہ شروع ہوجائینگے۔
حال ہی میں حکومت نے بجلی کےنرخ، دواوں اور یوٹیلیٹی اسٹورز پر اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کا جو اعلان کیا ہے وہ آئی ایم ایف کے مطالبات کو پورا کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔ ایف اے ٹی ایف بل کی منظوری بھی تیسری قسط کی ایک بنیادی شرط تھی جسے خلائی مخلوق کی مدد سے پورا کردیا گیا ہے۔
وزارت خزانہ کے بابو لوگ پرامید ہیں کہ ان اقدامات سے ظالم محبوب کا دل پسیج جائیگا اور 45 کروڑ ڈالر جلد ہی جاری ہوجائینگے۔
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹwww.masoodabdali.comپر تشریف لائیں
No comments:
Post a Comment