اسرائیل سے تعلقات کیلئے سعودی عرب پر شدید دباو
باخبر ذرایع کے مطابق واشنگٹن میں متحدہ عرب امارات، امریکہ، سعودی عرب اور اسرائیل کی مجوزہ سربراہ ملاقات کیلئے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی عدم آمادگی کے بعد امریکہ ایسی ہی ایک نشست ابوظہی میں منعقد کرنے پر زور دے رہا ہے۔اس سلسلے میں امریکہ کے داماد اول جیرڈ کشنر، شہزادہ محمد بن سلما ن سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز اسکے لئے بھی تیار نہیں۔
اب پیر کو ابوظہبی میں ہونے والی سہ فریقی اعلیٰ سطحی اجلاس میں شرکت کیلئے سعودی عرب پر دباوڈالا جارہا ہے۔ کل ہونے والے اجلاس میں اسرائیل و متحدہ عرب امارات 'معاہدہ امن و دوستی' پر دستخظ کرینگے۔
اس مقصد کیلئے اسرائیل کی قومی ائرلائن ال ایل (El Al)کی خصوصی پرواز سے جناب جیرڈ کشنر، قوی سلامتی کیلئے صدر ٹرمپ کے مشیر رابرٹ او برائن، مشرق وسطٰی کیلئے امریکہ کے خصوصی ایلچی اوی برکووٹز اور دوسری اعلیٰ امریکی حکام کے ساتھ قومی سلامتی کیلئے اسرائیلی وزیراعظم کے مشیر مائز بن شبات اوراسرائیلی وزارت خارجہ، اقتصادیات، زراعت اور دفاع کے سینئر افسران ابوظہبی روانہ ہونگے۔ اس پرواز کو LY-971کا نمبر دیا گیا ہے جو امارات کا بین الاقوامی ڈائل کوڈ ہے۔ واپسی کی پرواز کو اسرائیل کے ڈائل کوڈ کی مناسبت سے LY-972کا نمبر دیا گیا ہے۔ طیارے کو اس سفر کیلئےخصوصی طور پر آراستہ کیا گیا ہے۔ اسکے دروازرے پر عبرانی میں شلوم، عربی میں سلام اور انگریزی میں Peaceلکھاہے۔ سفر کے دوران عربی موسیقی اور پرواز کے آغاز پر توریت میں درج دعا و زبور کے ترانوں کیساتھ سفر کی قرآنی دعا بھی پڑھی جائیگی۔
اسرا ئیلی جریدے یودیوھرناتھ (Yedioth Ahronoth)نے انکشاف کیا ہے کہ ابوظہبی پروازکیلئے سعودی عرب نے اسرائیلی طیارے کو اپنی فضائی حدودسے گزرنے کی اجازت دیدی ہے۔
اگر شاہ سلمان نے محمد بن سلمان کو بوظہبی جانے کی اجازت دیدی تودستخط کی تقریب ایک دن موخر کردی جائگی تاکہ وزیراعظم نیتن یاہو بھی شریک ہوسکیں۔اب تک یہ واضح نہیں کہ اگر سعودی فرمانروا ولی عہد کی شرکت پر تیار نہیں تو کیا شاہ سلمان اعلیٰ اختیاراتی سعودی وفد ابوظہبی بھیجنے پر راضی ہوجائینگے؟ اسرائیلی ذرایع کے مطابق سعودی وزیرخارجہ یا وزیرتونائی شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان کی 'امن اجلاس' میں شرکت خارج از امکان نہیں ۔ تاہم ریاض کے سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ رائے عامہ کے شدید دباو کی بناپر سعودی قیادت فی الحال کچھ عرصہ خاموش رہنا چاہتی ہے۔
امریکی و اسرائیلی وفد کی ہئیت سے اندازہ ہوتا ہے معاہد ہ امن پر دستخط کی رسمی کاروائی کے بعد گفتگو کااصل موضوع علاقے کی عسکری صورتحال اور خلیجی ممالک کی اندرونی حفاظت ہوگا۔ یا یوں کہئے کہ شیوخ وملوک کے تخت و تاج کو لاحق خطرات کے ازالے کیلئے اقدامات وضع کئے جائینگے۔
اس ضمن میں یہ افواہ بھی گشت کررہی ہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل یمنی جزیرے سقطریٰ پرجدید ترین فوجی اڈا قائم کرنا چاہتے ہیں۔ بحر عرب میں 3800 مربع کلومیٹر رقبے پر واقع اس جزیرے میں 60 ہزار لوگ آباد ہیں۔ سقطریٰ انتہائی مصروف آبی شاہراہ پر واقع ہے۔ خلیج فارس اور بحر احمر سے آنے والے جہاز سقطریٰ کے ساحلوں کو تقریباً چھوتے ہوئے بحر عرب اور بحر ہند کی راہ لیتے ہیں۔سقطریٰ سے بحرعرب، خلیج فارس اور بحر احمر پر نظر رکھی جاسکے گی۔ سقطریٰ کے قلندر صفت گورنر استاذرمزی محروس کو پہلے ہی عملاً بے اختیار بلکہ مفلوج کیاجاچکا ہے۔استاذ محروس اخوانی فکر سے متاثر ہیں۔
حوالہ: روزنامہ یودیوھرناتھ (Yedioth Ahronoth) تل ابیب اور مڈل ایسٹ آئی