Sunday, August 30, 2020

اسرائیل سے تعلقات کیلئے سعودی عرب پر شدید دباو

باخبر ذرایع کے مطابق   واشنگٹن میں متحدہ عرب امارات، امریکہ، سعودی  عرب اور اسرائیل  کی   مجوزہ سربراہ ملاقات کیلئے  سعودی  ولی عہد محمد بن سلمان کی عدم آمادگی کے بعد امریکہ ایسی  ہی ایک نشست ابوظہی میں منعقد کرنے پر زور دے رہا ہے۔اس سلسلے میں امریکہ کے داماد اول جیرڈ کشنر،  شہزادہ محمد بن سلما ن سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز اسکے لئے بھی  تیار نہیں۔

اب   پیر کو ابوظہبی میں ہونے والی سہ فریقی اعلیٰ سطحی  اجلاس میں شرکت کیلئے سعودی عرب پر دباوڈالا جارہا ہے۔ کل ہونے والے اجلاس میں اسرائیل و متحدہ عرب امارات  'معاہدہ امن و دوستی' پر دستخظ کرینگے۔

اس مقصد کیلئے اسرائیل کی قومی ائرلائن  ال ایل (El Al)کی خصوصی پرواز سے  جناب جیرڈ کشنر، قوی سلامتی کیلئے صدر ٹرمپ کے  مشیر رابرٹ او برائن، مشرق وسطٰی کیلئے امریکہ کے خصوصی ایلچی اوی برکووٹز اور دوسری اعلیٰ امریکی حکام کے ساتھ قومی سلامتی کیلئے اسرائیلی وزیراعظم کے مشیر مائز بن شبات  اوراسرائیلی وزارت خارجہ، اقتصادیات، زراعت اور دفاع کے سینئر افسران  ابوظہبی روانہ ہونگے۔ اس پرواز کو LY-971کا نمبر دیا گیا ہے جو امارات کا  بین الاقوامی ڈائل کوڈ ہے۔ واپسی کی پرواز کو اسرائیل کے ڈائل کوڈ کی مناسبت  سے LY-972کا نمبر دیا گیا ہے۔ طیارے کو اس سفر  کیلئےخصوصی طور پر آراستہ کیا گیا ہے۔ اسکے دروازرے پر عبرانی میں شلوم، عربی میں سلام اور انگریزی میں Peaceلکھاہے۔ سفر کے دوران عربی موسیقی اور پرواز کے آغاز پر توریت   میں درج دعا و  زبور کے ترانوں  کیساتھ سفر کی قرآنی دعا بھی پڑھی جائیگی۔

اسرا ئیلی جریدے  یودیوھرناتھ (Yedioth Ahronoth)نے انکشاف کیا ہے کہ  ابوظہبی پروازکیلئے سعودی عرب نے  اسرائیلی  طیارے کو  اپنی فضائی حدودسے گزرنے کی اجازت دیدی ہے۔

اگر شاہ سلمان نے محمد بن سلمان کو بوظہبی جانے کی اجازت دیدی   تودستخط کی تقریب ایک دن موخر کردی جائگی تاکہ وزیراعظم نیتن یاہو بھی شریک ہوسکیں۔اب تک یہ واضح نہیں کہ اگر سعودی فرمانروا ولی عہد کی شرکت پر تیار نہیں تو کیا شاہ سلمان  اعلیٰ اختیاراتی سعودی وفد ابوظہبی بھیجنے پر راضی ہوجائینگے؟ اسرائیلی ذرایع  کے مطابق  سعودی وزیرخارجہ یا  وزیرتونائی شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان  کی 'امن اجلاس' میں شرکت خارج از امکان نہیں ۔ تاہم ریاض کے سفارتی حلقوں کا کہنا ہے  کہ رائے عامہ کے شدید دباو کی بناپر سعودی قیادت فی الحال کچھ عرصہ خاموش رہنا چاہتی ہے۔

امریکی و اسرائیلی وفد کی ہئیت سے اندازہ ہوتا ہے  معاہد ہ  امن پر  دستخط کی  رسمی کاروائی کے بعد گفتگو کااصل موضوع  علاقے کی عسکری صورتحال اور خلیجی ممالک کی اندرونی حفاظت ہوگا۔ یا یوں  کہئے کہ  شیوخ وملوک کے تخت و تاج کو لاحق خطرات کے ازالے کیلئے اقدامات وضع کئے جائینگے۔

اس ضمن میں یہ افواہ  بھی گشت کررہی ہے کہ  متحدہ عرب امارات اور اسرائیل  یمنی جزیرے  سقطریٰ پرجدید ترین فوجی اڈا قائم کرنا چاہتے ہیں۔  بحر عرب میں 3800 مربع کلومیٹر رقبے پر واقع اس جزیرے میں 60 ہزار لوگ آباد ہیں۔ سقطریٰ انتہائی مصروف آبی شاہراہ پر واقع ہے۔ خلیج فارس اور بحر احمر سے آنے والے جہاز سقطریٰ کے ساحلوں کو تقریباً چھوتے ہوئے بحر عرب اور بحر ہند کی راہ لیتے ہیں۔سقطریٰ سے بحرعرب، خلیج فارس اور بحر احمر پر نظر رکھی جاسکے گی۔ سقطریٰ کے قلندر صفت گورنر استاذرمزی محروس کو پہلے ہی عملاً بے اختیار بلکہ مفلوج کیاجاچکا ہے۔استاذ محروس اخوانی فکر سے متاثر ہیں۔

حوالہ:  روزنامہ  یودیوھرناتھ (Yedioth Ahronoth) تل ابیب اور مڈل ایسٹ آئی


 

سعودی عرب میں تیل و گیس کی دونئی دریافت

سعودی آرامکو نے شمالی سعودی عرب کے صوبے الجوف میں تیل و گیس کے دوذخائر دریافت کرنے کا اعلان کیا ہے۔  منطقہ یا صوبہ الجوف  شمالی سعودی عرب  میں اردن کی سرحد پر واقع ہے۔ آج ریاض میں  سعودی عرب کے وزیرتوانائی اور شاہ سلمان کے صاحبزادے شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان  نے سرکاری خبررساں ایجنسی ایس پی اے کو  اسکی تفصیلات سے آگاہ کیا جو کچھ اسطرح ہیں۔

الجوف کے شہر سکاکا کے قریب  ہضۃ الہجرہ  گیس فیلڈ  سے پیدوار کاابتدائی تخمینہ  ایک کروڑ 60لاکھ مکعب فٹ گیس  روزانہ (16mmcfd) ہے۔ اسی کیساتھ کنویں سے  1944بیرل لطیف  تیل یا Condensateبھی نکالاجائیگا

الجوف کے جنوب مشرقی شہر عر عر کے  قریب ابرق الثلول آئل   فیلڈ سے پیداوار کا  ابتدائی تخمینہ 3189 بیرل  تیل  اور گیارہ  لاکھ  مکعب فٹ گیس  یومیہ (1.1mmcfd)ہے۔

وزیرباتدبیر کے مطابق  عبوری آزمائش و پیمائش (Early Well Testing)کا کام ابھی جاری ہے جسکی تکمیل کے بعد  حتمی نتائج جاری کئے جائینگے۔  توسیع و ترقی کا کام مکمل ہونے پر ان دونوں میدانوں سےحاصل ہونے والی  پیداوار میں بھاری اضافہ متوقع ہے۔

حوالہ: العربیہ


 

Saturday, August 29, 2020

کراچی بلکہ ہر شہر کے مسائل

حالیہ بارشوں نے کراچی کا جو حال کیا ہے اس پر وطن عزیز کا ہرشخص فکر مند ہے۔ فوج اور رفاحی تنظیموں کی امدادی سرگرمیاں قابل تعریف ہیں لیکن  یہ سب وقتی  راحت کے سامان ہیں جبکہ اس مسئلے کا ایک دیرپا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلگتے  اور چبھتے موضوع پر ممتاز دانشور اور صحافی جناب سید  شاہد ہاشمی کی فکر انگیز تحریر

وطنِ عزیز میں شہریوں کو درپیش Civic Problems پرہم، اکثر نوحہ کُناں رہتے ہیں۔خصوصاً کراچی کی تباہی و بربادی پر۔

‏ہزاروں برس کے انسانی تجربات اورمسلسل تمدنی اِرتقا کے نتیجہ میں ساری دنیا، اختیارات و فرائض کی نچلی سطح پر منتقلی کے کامیاب تجربےسے مستفید ہورہی ہے۔

بڑے شہروں اور ضلعوں/ کاؤنٹیز  (Counties)کے لیےخودمختار و بااختیار بلدیاتی حکومتوں کا نِظام وجود میں لایا گیاہے۔

‏عوام کی روز مرّہ زندگی سےمتعلق بیشتر کام شہری اور ضلعی حکومتوں کے حوالے کردیے گئے ہیں۔‏یہ اُمور اور اِن سے وابستہ انتظامی و مالیاتی اختیارات بھی اِنھی کے سپرد ہوتے ہیں۔

‏اسکول ایجوکیشن، پولِیسِنگ (Policing)، اَربَن ٹرانسپورٹ (Urban Transport)، بلڈنگ کنٹرول (Building Control)، اورٹاؤن پلاننگ  (Town Planning)کے شعبےسٹی/ ڈسٹرکٹ گورنمنٹس کے دائرۂ کار و اختیار میں ہوتے ہیں۔

‏اِن کاموں کی انجام دہی کے لیےوہ ٹیکسز بھی لگاتی ہیں۔

‏مگر بدقسمتی سے، ہمارا ملک تاحال، جاگیردارانہ سوچ، مزاج اور کلچر سے آزاد نہیں ہوسکا ہے۔

‏یہ ذہنیت، کسی کو کچھ دینا نہیں جانتی, صرف لینا جانتی ہے۔

‏ہرشے کا اِرتکاز چاہتی ہے۔مال کا، طاقت کا، اقتدار کا، اختیارات کا اِرتکاز!

)اٹھارھویں ترمیم کے بعد) وِفاقِ پاکستان کے بےشمار اختیارات صوبوں کو مل گئے ہیں۔

‏مگر صوبائی حکومتیں دنیا بھر میں رائج ضلعی حکومتوں کے اختیارات بھی سلب کرتی جارہی ہیں۔

‏‏صوبہ سندھ کی حکومت(جو طویل عرصے سے، ایک مخصوص پارٹی کی تحویل میں ہےاور نجانے کتنی نسلوں تک رہے گی) ”وڈیرہ شاہی” نفسیات کی کلاسیکل مثال ہے۔

‏اِس حکومت نے تو کراچی میں کچرا اٹھانے کا کام بھی بلدیہ کراچی سے لے لیا ہے۔

رواں صدی کی‏ پہلی دہائی کاشہری/ ضلعی حکومتوں کا کامیاب اور مفیدتجربہ اور نِظام برباد کردیا ہے۔

‏پہلی دہائی کا وہ سِٹی/ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ سسٹم سارے ملک میں صوبۂ سندھ میں اور کراچی میں بھی بڑا کامیاب و کارآمد اور ثمرآور ثابت ہوا۔

‏مگر نئی حکومتوں نےوہ پورا بلدیاتی نِظام ہی اُدھیڑ کر، یا لپیٹ کر رکھ دیا۔

‏صوبہ سندھ نے اُس کی جگہ خاص کر کراچی کوایک ناقص اور ناکارہ نِظام دیا۔

‏ اب اِس کا حل کیاہے؟

‏1) پورے ملک میں اُسی “سِٹی/ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ”سسٹم کا فوری اِحیا!

‏2) اُس پورےسسٹم کولازمی اورمکمل دستوری تحفظ دینا!

‏3) بلدیاتی انتخابات کا جَلد، بروقت، باقاعدہ اور تسلسل سے اِنعقاد!

‏4) ضلعی/ شہری حکومتوں کو سونپےگئے اختیارات کے مطابق ضروری وسائل کی فراہمی!

‏5) ارکانِ اسمبلی کی مُداخلت پر پابندی!

رواں صدی کی پہلی دہائی والے ”سِٹی/ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ” سسٹم کے اِحیا کے بعد:

‏1) فرائض و اختیارات اور وسائل نچلی سطح پر اُتریں گے۔

Devolution of Duties, Power & Resources ہوگا۔

2) شہریوں کی روز مرّہ زندگی میں سہولت اور آسانی پیدا ہوگی۔ اور

3) نئے صوبے بنانے کی آواز بھی مدھم پڑ جائے گی۔ان شاء اللہ!

مگر ناگزیر ہے کہ اِس سسٹم کوبرداشت کیا جائے،  چلنے دیا جائےاوراِس کے ساتھ نہ چالاکیاں کی جائیں نہ ہی   اِس کے پَر تراشے جائیں!

برائے رابطہ ‏سید شاہد ہاشمی

@SShahidHashmi

 

Friday, August 28, 2020

تیل اور تیل کی دھار

تیل اور تیل کی دھار

30 سعودی فوجی شمال مشرقی شام میں امریکی فوجی اڈے پر تعینات کردئے گئے۔ یہ علاقہ تیل کی پیداور کیلئے مشہور ہے جہاں دیرہ الزور اور العمر تیل کے میدانوں سے 4 لاکھ بیرل تیل یومیہ نکالا جاتا تھا۔ اسی علاقے میں بنی یاس ریفائنری بھی ہے۔ خانہ جنگی کے آغاز پر پیداوار تین لاکھ بیرل ہوگئی جو اب صرف 24 ہزار بیرل یومیہ  ہے۔ گولہ باری سے بنی یاس ریفاننری کو بھی سخت نقصان پہنچا ہے اور اب اسکی گنجائش 13000 بیرل یومیہ رہ گئی ہے۔

گزشتہ سال  اکتوبر میں جب  ترکی کے اصرار پر شمالی شام سے امریکی فوج کو ہٹایا گیا  اسوقت صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ شامی تیل  داعش کے ہاتھ نہیں لگنے دیگا اور امریکی فوجوں نے اسوقت سے عراقی سرحد پر دیرہ الزورکے قریب ڈیرہ ڈالا ہواہے۔ سعودی فوجیوں کے ساتھ آرامکو کے ماہرین بھی ہیں اور 30 ٹرکوں پر مشتمل ایک رگ اور دوسری مشنری سعودی فوج کی نگرانی میں العمر فیلڈ کی طرف جاتی دیکھی گئی۔ علاقے میں ٹینکوں، بکتر بند گاڑیوں اور دوسرے اسلحے سے لیس امریکی فوجیوں کی تعداد 500سے زیادہ ہے۔

بظاہر لگ رہا ہے کہ سعودی آرامکو ڈیرہ الزور و العمر تیل کے میدانوں کی تعمیر نو اور بنی یاس ریفاینری کی مرمت کا کام شروع کررہی ہے اور ان ماہرین کی حفاظت کیلئے سعودی فوج بھیجی گئی ہے۔

کیا شام کے بشارالاسد اپنے قدرتی وسائل پر امریکہ و سعودی عرب کا قبضہ ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلینگے؟؟؟ علاقے میں شامیوں کی نصرت کیلئے روسی فوج  موجود ہے جبکہ شمال مغرب کے بڑے حصے پر ترکی قابض ہے۔

 حوالہ: المیادین ٹیلی ویژن بیروت