Friday, August 7, 2020

بیروت!!کہنے والے کہتے ہیں کھا گئی نظر تنہا

 بیروت!!کہنے والے کہتے ہیں کھا گئی نظر تنہا

کیا بیروت پر حملہ اسرائیل کی کاروائی ہے؟ اس پر مخلتف ذرایع سے ملنے والی اطلاعات پر مبنی ایک پوسٹ حاضر خدمت ہے۔ ایک ہلکا سا تاریخی پس منظر میں دے دیا گیا ہے جس سے معاملے کو سمجھنے آسانی ہوگی۔مصروف احباب جنھیں غیر ضروری تفصیل سے دلچسپی نہیں وہ آخری تین چار پیراگراف دیکھ لیں۔

 

منگل  کے روز عملاً سارے بیروت کو دھماکے سے اڑادیاگیا۔ بحر روم کے ساحل پر واقع اس خوبصورت شہر نے اسرائیل کے قرب وجوار کے دوسرے عرب شہروں کی طرح کئی باراپنے لہو سےغسل کیا ہے شائد اسی لئے ہر آزمائش کے بعد مشرق وسطیٰ کی اس شہزادی کا چہرہ مزید گلنار ہوجاتا ہے۔ مورخین کہتے ہیں یہ  شہر نگاراں 5000 سال سے شادو آباد ہے۔بیروت کا  عرب تشخص اسکے نام سے ظاہر ہے۔ سمندر کے قریب ہونے کی وجہ سے یہاں زیر زمین پانی کی سطح خاصی بلند تھی اور نرم ریت کو انگلیوں سے کریدنے پر دو تین انچ گہرائی سے پانی نکل آتا تھا۔ عربی میں بئیر  کنویں کو کہتے ہیں اور اسی بناپر شہر کا نام بیروت پڑگیا۔تاہم اب یہ صورتحال نہیں اور سمندر سے بالکل متصل علاقوں کو چھوڑ باقی شہر میں زیرزمین پانی کی سطح نیچی ہوچکی ہے۔

635میں مسلمان تاجر  یہاں آئے۔مقامی آبادی کو پہلی بار ایسے تاجروں سے واسطہ پڑا  جو  صارف کو اپنے مال کی خرابی خود ہی بتادیتے ،ڈندی مارنے کے بجائے جھکتا تولتےاور بازار کی روایات کے برخلاف وہ مال بیچنے کیلئے قسمیں نہیں کھاتے تھے۔ جلد ہی انکی دکانیں دعوت کا مرکز بن گئیں اور آنے والے گاہک معیاری اشیا کے ساتھ ہدائت کی عظیم الشان دولت لے کر واپس لوٹنے لگے۔

1187 میں سلطان صلاح الدین نے بیروت کو فتح کیالیکن صرف 10 سال بعد جرمن صلیبیوں نے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ کہا جاتا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا لیکن صلاح الدین کا اقتدار بیروت میں مسیحیت کا سنہرا دور کہلاتا ہے جب انکے مبلغین نے سارے دیہی بیروت کو اپناہمنوا  بنالیا۔ 1512 میں لبنان عثمانی خلافت کا حصہ بن گیااور رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سلطان سلیم اول کے حکم پر بیروت  شہرکا نظم و نسق دروز وں کے حوالے کردیا گیا جو موحدین کہلاتے تھے۔

مذہبی و ثقافتی اعتبار سے بیروت اور سارا لبنان انتہائی متنوع ہے۔ مسلمانوں کی آبادی 52 فیصد ہے اور سنی شیعوں کا تناسب تقریباً برابر ہے۔مسیحی کل آبادی کا 42 فیصدہیں جن میں سے  ایک چوتھائی قبطی ہیں۔اقتدار میں بھی تمام مذاہب کو منصفانہ حصہ دیا گیا ہے،  صدر مسیحی، وزیراعظم سنی مسلمان اور اسپیکر شیعہ منتخب کئے جاتے ہیں۔ آزادی کے ساتھ ہی اپنے سابق آقا فرانس کی شدید مخالفت کے باجود لبنان نے اپنے عرب  تشخص کا اعلان کیا اور  اسرائیلی ریاست وجود میں آنے پراکثر مسلمان ملکوں کی طرح لبنان نے بھی اسےآج تک تسلیم نہیں کیا۔سرکاری طور پر لبنان اسرائیل کو اپنا دشمن نمبر ایک سمجھتا ہے۔

آزادی کے بعد بیروت پھلتا پھولتا رہا اور  بیروت کی وہی حیثیت ہوگئی جو آجکل دبئی کی ہے۔1975 میں سازش کامیاب ہوئی اور مسیحی و مسلمان ایکدوسرے کے خلاف صف ارا ہوگئے۔ 15 سال جاری رہنے والی خانہ جنگی نے بیروت کو ملبے کا ڈھیر بنادیا۔اسی دوران 1978 میں شامی فوج بھی در آئی اور حملوں میں مشرقی بیروت کا مسیحی شہر الاشرفیہ زمیں بوس ہوگیا۔ خونریزی کا سب سے افسوسناک پہلو مسیحیوں اور مسلمانوں  کے درمیان نفرت کی لہر تھی اورسینکڑوں برس سے برداشت و رواداری کی مثال بنے رہنے والا بیروت مسیحی مشرق اور مسلم مغرب میں تقسیم ہوگیا۔ تاہم مسلمان اور عیسائی قیادت نے مکالمہ برقرار رکھا اور مفاہمتی کوششٰیں جاری رہیں۔

1990میں  خانہ جنگی ختم ہوئی اور بیروت کی تعمیر نو کا آغاز ہوا، شہر کی رونقیں بحال ہوگئیں اور بیروت کے خوبصورت ساحل پرسیاحوں کاہجوم بڑھنے لگا۔یورپ کے کئی مقابلہ حسن بیروت میں منعقد ہوئے۔اسی کیساتھ عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی میں بھی کمی آگئی۔ بیروت کی خوشحالی کچھ عناصر کو ایک آنکھ نہ بھائی۔ دشمنوں کے علاوہ دوستوں کو بھی  تیزی سے ابھرتے بیروت  پر سخت تشویش تھی ۔ خیال تھا کہ بیروت جلد ہی مشرق وسطیٰ کا دوبئی بن جائیگاکہ شاندار موسم اور متنوع جغرافیہ کے اعتبار سے دوبئی کے ریگستان کا باغ و بہار بیروت سے کوئی مقابلہ نہ تھا۔

2005میں وزیراعظم رفیق حریری قتل کردئے گئے۔ لوگوں کو شک  ہے کہ یہ  سب  شام کا کیا دھراتھا، چنانچہ لبنان سے شام کے انخلا کی تحریک چلی۔آخر کار شامی فوج واپس چلی گئی، بیروت کی تعمیر کا کام تیز ہوااور جلد ہی ساحلوں پر فیشن ایبل ہوٹل آباد ہوگئے۔ اسی دوران  2006میں اسرائیل و لبنان کے درمیان براہ راست تصادم شروع ہوا۔  اسرائیل لبنانی فوج کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے میں ناکام رہا۔ لبنانی فوج نے اسرائیل کی زبردست مزاحمت کی اور حزب اللہ کی مددسے لبنانی فوج نے حملہ آوروں کو پیچھے دھکیل دیا۔ اسرائیل کے دفاعی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ یہ پہلی جنگی تھی جس میں اسرائیل فوج پسپائی پر مجبور ہوئی۔

بم دھماکوں اور دہشت گردانہ کاروائیاں اور اسرائیل کے میزائیل حملوں کے باوجود بیروت کی رونقیں بحال رہیں کہ 5 اگست کا واقعہ پیش آیا۔

اس طویل تمہیدکے بعد اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف کہ یہ لبنانی بدنصیبوں کی قسمت کا لکھا ہے یا اسکے پیچھے کچھ پردہ نشین بھی ہیں۔ نظریہ سازش پر یقین رکھنے والے انگلی سے جنوب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہے کہ۔ 'سب بلاوں کا ہے جہاں سے نزول ، یہ بلا بھی وہیں سے آئی ہے'۔ یہ مفروضہ بے بنیاد بھی نہیں بلکہ واقعے سے پہلے اسرائیل وزیراعظم کی تقریر اور دھمکی آمیز ٹویٹ سے شبہہ کو تقویت ملتی ہے

2018 میں  اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں وزیراعظم نیتن یاہو  نے بیروت کا نقشہ دکھاتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ حزب اللہ نے اس مقام پر ہتھیار چھپا رکھے ہیں۔ 5 اگست کو ہونے والے دھماکے کا مقام اس جگہ سے چند کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔ دوسری طرف حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کا کہنا ہے کہ حزب اللہ شہروں میں اسلحہ نہیں رکھتی ہماری تمام عسکری سرگرمیاں دشمن کے سر پر ہیں۔

4 اگست کو اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے ایک ٹویٹ میں چند دن پہلے شام پر حملے کاحولہ دیتے ہوئے کہا کہ

'ہم نے (دہشت گردوں کے ) ٹھکانے کو نشانہ بنایا،  انھیں بھیجنے والوں پر حملہ کیا۔ ہم اپنے دفاع کیلئے آخری حد تک جائینگے اور حزب اللہ سمیت  تمام (دہشت گردوں ) کو (اسرائیل کے خلاف کاروائی کرتے سے پہلے) اس بات کو سمجھ لینا چاہیے'

صدر ٹرمپ نے بھی دھماکے کے فوراً بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ خوفناک حملہ بندرگاہ پر موجود اتشگیر مادے اور دھماکہ خیز مواد کو تیلی دکھانے کا سب ہوسکتاہے قرار دینے کے بعد ممکنہ حملے سے متعلق افواہوں نے تیزی پکڑ لی تھی۔

جائزے کے مطابق لبنانیوں کا خیال ہے کہ اگر اسرائیل براہ راست ملوث نہیں تب بھی کسی نہ کسی اعتبار سے نیتن یاہو نے سہولت کاری ضرور کی ہے۔ جب بیروت سے خیر سگالی کا اظہار کرتے ہوئے تل ابیب بلدیہ کی عمارت پر  روشنی سےلبنان کا پرچم بنایا گیا تو اسکے خلاف سوشل میڈیا پر زبردست ردعمل سامنے آیا۔ دوتبصرے جو بے حد مقبول ہوکر ٹرینڈ بنے وہ کچھ اسطرح ہیں

'آج وہ ہمارا جھنڈا لہرارہے ہیں لیکن بہت جلد ہمارے ملک پر حملہ آور ہونگے'

'(تم روشنی سے ہمارے پرچم لہراو) ہم تل ابیب کو اپنے راکٹوں سے روشن کرینگے'

حوالہ: صباح نیوز ترکی، بی بی سی، صدائے امریکہ اور ٹائمز آف اسرائیل


 

No comments:

Post a Comment