Wednesday, August 19, 2020

اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاملہ

 

اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاملہ

متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرلینےکے بعد سے پاکستان میں صیہونی ریا ست سے سفارتی تعلقات  کی تحریک کا دوبارہ آغاز ہوچکا ہے۔

جنرل پرویز مشرف  اس  معاملے میں بہت سنجیدہ تھے اور انکے وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری  نے اسرائیلی رہنماوں سے ملاقاتیں بھی کی تھیں۔اس سلسلے میں سابق سکریٹری خارجہ ریاض محمد خان کی امریکی اہلیہ نے بہت اہم کردارادا کیاتھا۔ یہ خاتون امریکی وزارت خارجہ میں اہم عہدے پر تھیں۔ستمبر 2005میں اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس کے دوران پرویز مشرف  نے مبینہ طور پر اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایرئیل شیرون سے خفیہ رابطے تھے۔آنجہانی ایرئیل شیرون کو  قصاب بیروت  کہا جاتا ہے کہ 1992  قتل عام کے وہ نہ صرف منصوبہ ساز تھے بلکہ عینی شاہدین کے مطابق انھوں نے انسانوں کے اس ذبیحے کی بنفس نفیس نگرانی بھی کی تھی۔ 16 سے 18 ستمبر تک جاری ہنے والی اس درندگی میں مغربی بیروت کے فلسطینی پناہ گزین کیمپوں صابرہ اور شاتیلہ میں 3500خواتین اور بچے ذبح کردئے گئے۔ ذبیحہ کا لفظ مبالغہ نہیں کہ اکثر لوگ سنگینیں بھونک کر ہلاک کئے گئے۔

جب اکتوبر 2007 میں پرویزمشرف  دوسری مدت کیلئے صدر'منتخب ' ہوئے تو اسرائیل کے صدر شمعون پیریز نے انھیں مبارکباد دی۔سفارتی تعلقات نہ ہونے کی وجہ سے جنا ب پیریز کا یہ تہنیتی پیغام کھلے خط کی شکل میں اسرائیلی اخبارات نے شایع کیا۔شمعون پیریز کا پرویز مشرف  سے لاڈوپیار خاصہ پرانا تھا۔  نومبر 2001 میں نیوزویک سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے   پرویز مشرف کے 1999کےفوجی انقلاب کو بروقت اور ضروری قراردیا تھا۔ساتھ ہی بہت جذباتی انداز میں فرمایا 'یہ تصور بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ میرے جیسا یہودی پرویز مشرف کی صحت وسلامتی کی دعا کریگا۔(مشروف کیلئے دعا کرنا) ایک ناقابل بیان تجربہ ہے'

انوارالسادات ہوں ، پرویز مشرف، محمد بن زید یا اسرائیل سے دوستی کے دوسرےحامی، سب ہی  فلسطینیوں کی 'ہمدردی' میں ایسا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ مزے کی بات کہ فلسطینیوں کے خیال میں  ایسی ہر کوششش  انکی  پشت میں چھرا  گھونپنے کے مترداف ہے۔ امارات کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے فیصلے پر حماس کے ترجمان نے کہا کہ 1977میں انوارالسادات نے ہماری پشت میں جو چھرا گھونپا تھا،اماراتی اعلان کے ساتھ اسکی نوک  اب ہمارے دل وجگر تک آگئی ہے۔

ادھر کچھ عرصے سے پاکستان کے دفاعی تجزیہ نگار جنرل امجد شعیب نے اسرائیل سے تعلقات کی تحریک چلا رکھی ہے جسے کامران خان، آغاہلالی اوردوسرے اینکرز کی حمائت حاصل ہے۔

اسرائیل کو کیوں نہ تسلیم کیا جائے؟؟

یہ معاملہ مذہبی یا سیاسی نہیں بلکہ اخلاقی ہے۔ جنرل امجد شعیب صاحب دلیل دیتے ہیں کہ ہندوستان ہمارا ازلی دشمن ہے، جس سے ہم کئی جنگیں لڑچکے ہیں اور آج بھی عملاً حالت جنگ میں ہیں لیکن جب اس سے سفارتی تعلقات ہیں تو اسرائیل سے تعلقات میں کیا برائی ہے؟ ا س بودی دلیل کا جواب یہ ہے کہ ہندوستان سے ہماراسرحدی تنازعہ ہے اور ہم اسکا کشمیر پر قبضہ قبول نہیں کرتے لیکن ہندوستان ریفرنڈم میں رائے شماری کے بعد قائم کیا گیا ہے۔ کشمیر اور جوناگڑھ کے علاوہ ساراہندوستان قانونی اعتبار سے جائز ہے

دوسری طرف اسرائیل فلسطینیوں کی زمین پر قبضہ کرکے بنایا گیا ہے اورا سکی حیثیت بالکل وہی ہے جو کشمیر پر ہندوستان کے قبضے کی۔ اسی دلیل کی بنیاد پر پاکستان نے جنوبی افریقہ کو اسوقت تک تسلیم نہیں کیا تھا جب تک وہاں نسل پرست آئین کا خاتمہ کرکے  (کالی) اکثریت کے حق حکمران کویقینی نہیں بنایا گیا۔ یہی بات کل عمران خان نے کامران خان کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی ہے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ اگر ہم اسرائیل کو تسلیم کرلینگے تو کشمیر سے بھی (اخلاقی طور پر) دستبردار ہونا پڑیگا۔ انھیں نے بہت واضح انداز میں کہا

'اسرائیل و فلسطین کے بارے میں ہمیں اللہ کو جواب دینا ہے۔ ساری دنیا اسرائیل کو تسلیم کرلے تب بھی اسے قبول کرنے پر میرا ضمیر تیار نہیں'

کچھ ایسی ہی  بات  قائداعظم نے فرمائی تھی کہ 'اسرائیل اسلامی ملت کے سینے میں گھپاخنجر اور ناجائز ریاست ہے'

اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے مختلف مسلم ممالک پر شدید دباو ہے

·        ملائیشیا نے اسرائیل تسلیم کرنے تجویز مسترد کردی ہے

·        سوڈان میں امارات کی وظیفہ خوار فوجی جنتا اسرائیل تسلیم کرنے کیلئے بلڈی سویلینز پر دباو ڈال رہی ہے اور جنرل عبدالفتاح برہان کے کہنے پر وزارت خارجہ نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عندیہ بھی دیدیا لیکن وزیراعظم ڈاکٹر حمدوک نے اس پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور  وزیراطلاعات عمر قمرالدین نے ترجمان کو برطرف کردیا۔ دیکھنا ہے کہ اس جسارت پر وزیراعظم کا کیاحشر ہوتا ہے

·        سعودی عرب نے بھی فلسطین کا معاہدہ ہونے تک اسرائیل سے دفارتی تعلقات کا معاملہ موخر کردیا ہے۔

·        خیال کیا جارہا ہے کہ سعودی اعلان کے بعد شائد عمان اور بحرین بھی اس معاملے پر معقولیت اختیار کریں گے


2 comments: