Wednesday, August 26, 2020

امریکہ کے صدارتی انتخابات۔ امیدواروں کا تعارف۔ کملادیوی

امریکہ کے صدارتی انتخابات۔ امیدواروں  کا تعارف۔ کملادیوی 

55 سالہ کملا دیوی ہیرس نائب صدارت کیلئے ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہیں۔ کملا ہیرس امریکی تاریخ کی پہلی سیاہ فام اور ہندوستانی نژاد خاتون ہیں جنھیں نائب صدرکیلئے امیدوار نامزد کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے 1984 میں سابق نائب صدر والٹر مانڈیل نے  نائب صدارت کیلئے جیرالڈین فرارو اور 2008میں انجہانی سینیٹر جان مک کین نے محترمہ سارا پیلن کو نائب صدارت کیلئے نامزد کیا تھا۔ بدقسمتی سے یہ دونوں خواتین ہارنے والے پینل کا حصہ ثابت ہوئیں۔

کملا کی والدہ ڈاکٹر شیا مالا گوپلان مدراس، ہندوستان سے  اعلی تعلیم کیلئے جامعہ کیلی فورنیا برکلے آئی  تھیں جہاں انکی ملاقات جمیکا (Jamaica)کے ڈاکٹر ڈانلڈ ہیرس سے ہوئی۔ جلد ہی  دونوں نے شادی کرلی۔ کملا کی پیدائش کے صرف سات سال بعد انکے والدین کی طلاق ہوگئی۔  جسکے بعد  کملا اور انکی چھوٹی بہن مائرہ اپنی ماں کیساتھ رہنے لگیں۔ انکی والدہ مذہبی خاتون تھیں اور وہ رواداری کامظاہرہ کرتے ہوئے اپنی بیٹیوں کو ہندومندر کے ساتھ انکے پتاجی کےسیاہ فام گرجا بھی لے جایا کرتی تھیں۔کملا کو کم عمری سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ کہتی ہیں کہ بچپن میں سفید فام بچے انکے ساتھ نہیں کھیلتے تھے۔ کملا کی والدہ 2011میں انتقال کر گئیں۔

کملا ہیرس نے امریکی دارالحکومت کی جامعہ ہورورڈ (Howard) سے سیاسیاست اور معاشیات میں بی اے کیا۔ احباب کی وضاحت کیلئے عرض ہے کہ Howardاور جامعہ ہارورڈHarvardمحتلف تعلیمی ادارے ہیں۔ ہارورڈ میسیچیوسٹس کے شہر بوسٹن میں ہے۔ Howardسیاہ فام تعلیمی ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ بی اے کے بعد کملا نے جامعہ کیلی فورنیا  سان فرانسسکو سے قانون کی سند حاصل کی۔ کملا کی اب تک اپنی کوئی اولاد  نہیں لیکن انکے شوہر ڈگلس ایمہوف کی سابق اہلیہ کے دو بچے انکے ساتھ رہتے ہیں۔ کملا کے بے پناہ پیار کی وجہ سے انکے سوتیلے بچے (ایک بیٹی اور ایک بیٹا) انھیں مومالا (موم کمالا) کہتے ہیں۔ ڈگلس ایمہوف ایک راسخ العقیدہ یہودی ہیں۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد محترمہ کملا المیڈا کاونٹی کی نائب ایڈوکیٹ جنرل (Assistant District Attorney)مقرر ہوئیں۔ 2003 میں انھیں سان فرانسسکو کی سرکاری وکیل (District Attorney)منتخب کرلیا گیا،جبکہ 2010 کے انتخابات میں کملا کیلی فورنیا کا اٹارنی جنرل منتخب ہوئیں۔ 2016 میں  جب ڈیموکریٹک پارٹی کی سینئر سینیٹرباربرا باکسر نے عملی سیاست کو خیر باد کہا تو انکی خالی کردہ نشست پر کملا ہیرس  سینیٹر منتخب ہوگئیں۔

2018کے وسط مدتی انتخابات کے فوراً بعدکملا ہیرس نے 2020 کے صدارتی انتخاب کیلئے مہم شروع کردی۔ وہ جو بائیڈن کی سخت مخالف تھیں اور ایک مباحثے میں انھوں نے جو بائیڈن پر نسل پرستی  کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا۔ انکا کہنا تھا کہ  جب وہ چھوٹی تھیں تو کملا محلے کے اسکول جانے کے بجائے بس پر بیٹھ کر بہت دور واقع ایک اسکول جاتی تھیں کہ محلے کے سفید فام اسکول میں انکا داخلہ ممنوع تھا۔ کملا ہیرس نے الزام لگایا کہ اسوقت جو بائیڈن سینیٹر تھے اور انھوں نے اس نسلی امتیاز کے خلاف آواز بلند نہیں کی۔ اس موقع پر کملا اور جوبائیڈن کے درمیان سخت تلخ کلامی ہوئی اور مباحثے کے بعد وہ جو بائیڈن سے ہاتھ ملائے بغیر پیر پٹختی اسٹیج سے اتر گئیں۔

پرائمری انتخابات کے دوران کملا کی کارکردگی شروع ہی سے خراب تھی۔ چنانچہ  وہ نوشتہ دیوار پڑھ کر جلد ہی دستبردار ہوگئیں۔ مہم ختم کرتے ہوئے کملا نے کہا کہ انکے پاس انتخابی مہم جاری رکھنے کیلئے مالی وسائل نہیں۔ کچھ عرصے بعد انھوں نے جو بائیڈن کی غیر مشروط حمائت کا اعلان کردیا۔

 کملا ہیرس ہیں تو نسلی اعتبار سے سیاہ فام لیکن اٹارنی اور مستغیث (Prosecutor)کی حیثیت سے انھوں نے زیادتی اور نسلی امتیاز کا مظاہرہ کرنے والے پولیس افسران کا دفاع  اور چھوٹے چھوٹے جرائم پر عدالتوں سے سخت ترین سزاوں کامطالبہ کیا۔ 1994 میں منشیات اور پرتشدد جرائم کے سد باب کیلئے صدر بل کلنٹن  نے عادی وپیشہ ور مجرموں کو سخت سزادینے کیلئے Habitual Offenders Lawsمنظورکیا جسکے مطابق تین چھوٹی واردات کے مرتکب افراد کو خطر ناک و ناپسندیدہ عنصر سمجھ کر انکے لئے عدالتوں سے سخت سزا کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ یہ ضابطہ تین خلاف ورزی یا Three-strikes laws کے نام سے مشہور اور سیاہ فاموں میں بدنام ہے۔ پولیس سیاہ فام بچوں کو دوکان سے چاکلیٹ کی ٹکیہ چرانے، شراب خریدنے کیلئے جعلی شناخت دکھانے، اسکول میں لڑائی جھگڑے، آدھی رات کے بعد آوارہ گردی ، سڑک پر زیبرا کراسنگ کو نظر انداز کرکے سڑک پار(jay walking)کرنے جیسے تین چھوٹے الزامات میں ملوث کرکے ان کیلئے سخت سزاوں کا مطالبہ کرتی ہے۔ امریکی جیلوں میں ہزاروں کم عمر سیاہ فام اور ہسپانوی نوجوان 'تین خلاف ورزیوں' کے الزام میں طویل سزا بھگت رہے ہیں۔ سرکاری وکیل کی حیثیت سے کملا نے کم عمر رنگدار بچوں کو سخت سزائیں دلوائیں۔


 

 

No comments:

Post a Comment