بیروت!!میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں؟؟
4اگست کی دوپہر خوفناک دھماکوں نے بیروت کے بڑے حصے کو اینٹ، سرئیے، ریت اور پتھر میں تبدیل کردیا۔ اس حادثے میں 200 سے زیادہ افراد ہلاک اور 7000 کے قریب زخمی ہوگئے۔ ملبے صاف ہونے پر مزید لاشوں کی دریافت خارج ازامکان نہیں۔ تقریباً 3 لاکھ افراد بے گھر ہیں اور مالی نقصانات کاتخمینہ 15 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ مالی نقصان سے بڑھ کر مواقع اورامکانات کے زیاں نے لبنانیوں کو افسردہ کررکھا ہے کہ دھماکے سے بیروت کی بندرگاہ زمیں بوس ہوچکی ہے۔کرینیں تباہ، گودام خاکستر اور گودیاں مسلمار ہوجانے کی بناپر مرمت کے بجائے ساری بندرگاہ کو نئے سرے سے تعمیر کرنا ہوگا جس میں ایک سال لگ سکتا ہے۔
ترکی نے اپنی دوسری بڑی بندرگاہ مرسن، بیروت کے متبادل کے طور پر پیش کردی ہے۔بحر روم کے جنوب مشرقی ساحل پر جدید ترین سہولتوں سے مزین مرسن کی بندرگاہ 1950میں تعمیر کی گئی ہے۔ 8مارچ کو ترک نائب صدر فواد اکتے اور وزیرخارجہ مولت داؤد اوغلو نے لبنانی صدر مشل عون سے ملاقات کے بعد بتایا کہ بیروت کے بندرگاہ کے دوبارہ قابل استعمال ہونے تک لبنان مرسن کی بندرگاہ کو استعمال کرسکتا ہے۔ترک نائب صدر نے کہا کہ بندرگاہ کے کسٹم کاؤنٹر، دفاتر اور گودام کی تمام سہولتیں لبنان کیلئے حاضر ہیں۔ ترک نائب صدر نےکہا کہ اگر لبنانی حکومت چاہے تو انکا ملک بیروت کی بندرگاہ کی تعمیر نو کا کام فوری طور پر شروع کرنے کو تیار ہے۔
امریکی مساحت ارضی (USGS)کے مطابق دھماکے کی شدت 3.3شدت کے زلزلے کے مساوی تھی۔ منگل کی دوپہر ہونے والے ان دودھماکوں کی آواز 250 کلومیٹر دوڑ قبرص تک سنی گئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دھماکوں کی گونج ، ارتعاش اور تباہی دنیا کے کسی بھی ٖغیر جوہری دھماکے سے زیادہ تھی۔
ابتدائی تحقیقات کے مطابق 3030 ٹن امونیم نائٹریٹ اس دھماکے کا سبب بنا جو وہاں ایک گودام میں 2014 سے رکھا ہواتھا۔ امونیم نائٹریٹ انتہائی ناگوار بو اوردم گھٹنے والی گیس ایمونیا اور شورے کے تیزاب یا نائٹرک ایسڈ کے ملاپ سے بنتا ہے۔اسے نائٹروجن کے حصول کیلئے کھاد میں ملایا جاتا ہے۔اسکے علاوہ امونیم نائٹریٹ کان کنی کیلئے استعمال ہونے والے صنعتی معیار کے دھماکہ خیز مواد کی تیاری میں بھی استعمال ہوتا ہے۔اتنی بڑی مقدار میں اس نامراد ذخیرے کی کہانی بھی کچھ عجیب سی ہے۔
ستمبر 2013 میں امونیم نائٹریٹ سے لدا ایک جہاز ایندھن کیلئے بیروت کی بندرگاہ پر لنگراندازہوا۔ مال ایک روسی تاجر کی ملکیت تھا اور جہاز کی منزل موزنبیق تھی۔ خیال تھا کہ جہاز بحرروم سے نہر سوئز کے راستے بحر احمر اور وہاں سے افریقہ پہنچے گا لیکن جہاز MV Rhosusکے کپتان صاحب نے انکشاف کیا کہ انکے پاس نہر سوئز سے گزرنے کیلئے محصولات، چنگی اور دوسرے اخراجات کیلئے پیسے نہیں۔ اسی دوران یہ انکشاف بھی ہوا کہ سامان غلط طریقے سے لادنے کی بناپر جہاز اب مزید سفر کے قابل نہیں۔ چنانچہ لبنان کسٹمز نے اپنے اخراجات کے بدلے امونیم نائٹریٹ پر قبضہ کرکے گودام میں رکھدیا گیا۔ کچھ عرصے بعد یہ جہاز بیروت کے ساحل کے قریب ڈوب گیا۔ 2014 سے رکھے ہوئے اسی سوڈیم نائٹریٹ نے منگل کو تباہی مچادی۔
امونیم نائٹریٹ کو دہشت کردی کیلئے پہلی بار اپریل 1995میں استعمال کیا گیا جب امریکی فوج کے دو سابق سپاہیوں نے اپنی حکومت کی پالیسیوں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اوکلاہوما سٹی میں وفاقی حکومت کے دفتر کو ایک ٹرک کے ذریعے اڑادیا۔ اس واردات میں 2 ٹن امونیم نائٹریٹ استعمال کیا گیا تھا۔ دھماکے سے عمارت کا بڑاحصہ منہدم ہوگیا جس میں 168 افراد ہلاک اور 700 کے قریب لوگ زخمی ہوئے جبکہ نقصانات کا تخمینہ کئی ارب ڈالر ہے۔
ہم نے اوکلاہوما واقعے کا حوالہ اسلئے بھی دیا ہے کہ یہ وحشیانہ کاروائی مسلمانوں کے سر تھوپی جاچکی تھی۔ واقعے میں ملوث دونوں ملزمان کاروائی کے بعد موقعہ واردات سے صحیح سلامت بھاگنے میں کامیاب ہوگئے اور بات عام ہوگئی کہ یہ 'خود کش مسلم دہشت گردوں ' کی کاروائی تھی۔ ایف بی آئی کی ابتدائی رپورٹ میں رمزی یوسف گروپ کو ذمہ دار ٹہرایاگیا جو 1993 نیویارک کے وورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے میں مبینہ طور پر ملوث تھا۔ آئی ایس آئی کے تعاون سے رمزی کو صرف دو ماہ پہلے اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ایف بی آئی کا کہناتھا کہ رمزی کی گرفتاری کا بدلہ لینے کیلئے یہ حملہ کیا گیا ہے۔
دھماکے کے ڈیڑھ گھنٹے بعد ایک ملزم ٹموتھی مک وے Timothy McVeighکو گاڑی تیز چلانے پر روکاگیا، معمول کے مطابق پولیس افسر نے اس سے ڈرائیونگ لائیسنس طلب کیا جسے نکالنے کیلئے جب ٹموتھی نے گاڑی کا اشیا خانہ (Gloves Compartment)کھولا تو اس سےایک پستول نیچے گرپڑا۔تب بھی افسر کو کوئی شک نہ گزراکہ دورانِ سفر گاڑیوں میں لائیسنس یافتہ اسلحہ رکھنا امریکہ میں عام ہے۔ افسر نے ضابطے کے مطابق اسلحہ لائیسنس پیش کر نے کا حکم دیا۔ لیکن ٹموتھی اتنا خوفزدہ ہوگیا کہ اس نے بغیر کسی سوال جواب کہ پولیس افسر کے سامنےاوکلاہوما حملے کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے ساتھی کا نام بھی بتادیا۔ اگر ٹموتھی 'اتفاقاً' گرفتار نہ ہوتا تو نہ معلوم کتنے بے گناہ مسلم اسوقت جیلوں میں سڑ رہے ہوتے۔مقطع میں آپڑنے والی اس سخن گسترانہ بات کے بعد اب اصل موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔
جلد بھڑک اٹھنےاور دھماکہ خیز نوعیت کی بناپر امونیم نائٹریٹ کو ذخیرہ کرنے میں حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہے کہ ہلکی سی لاپرواہی ذخیرہ کو ایک خوفناک بم میں تبدیل کرسکتی ہے۔ تازہ امونیم نائٹریٹ قلمی نوعیت کے دانے دار شکل میں ہوتا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ فضا سے نمی جذب کرکے یہ قلمیں ایکدوسرے سے جڑ کر چٹانوں کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ان چٹانوں کو بارود کا پہاڑ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ ہلکی سی چنگاری اسے آتش فشاں بنادیتی ہے۔ یہ عام بارود کے مقابلے میں اس اعتبار سے زیادہ خطرناک ہے کہ امونیم نائٹریٹ پھٹنے سے امونیا اور نائٹروجن آکسائید کا آمیزہ مہیب نارنجی بادل کی شکل میں آسمان کی طرف اٹھتا دکھائی دیتا ہے۔مشروم جیسی ساخت کی بنا پر لگتا ہے گویا جوہری دھماکہ ہوا ہے۔ اس گیس سے دم گھٹتا محسوس ہوتا ہے اور اگر یہ حادثہ حبس کے دوران پیش آئے تو دمہ و سانس کے مریضوں کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
بیروت کی طرح امونیم نائٹریٹ کئی بار خوفناک دھماکوں کا سبب بنا ہے۔
· 1921میں جرمنی کے BASFپلانٹ پر دھماکے میں 561 افراد مارے گئے
· 1947 میں امریکہ کے ٹیکسس سٹی کی بندرگاہ جہاز پر سامان لادتے وقت خوفناک حادثہ پیش آیا اور 2000 ٹن امونیم نائٹریٹ پھٹنے سے 581 افراد لقمہ اجل بنے
· 5 سال پہلے شمالی چین میں دنیا کی سب سے بڑی بندرگاہ تیانجن پر امونیم نائٹریٹ پھٹنے سے 175 افراد مارے گئے
بحر روم کے ساحل پر واقع بیروت نے دوسرے عرب شہروں کی طرح کئی باراپنے لہو سےغسل کیا ہے شائد اسی لئے ہر آزمائش کے بعد مشرق وسطیٰ کی اس شہزادی کا چہرہ مزید گلنار ہوجاتا ہے۔ مورخین کہتے ہیں یہ شہر نگاراں 5000 سال سے شادو آباد ہے۔بیروت کا عرب تشخص اسکے نام سے ظاہر ہے۔ سمندر کے قریب ہونے کی وجہ سے یہاں زیر زمین پانی کی سطح خاصی بلند تھی اور نرم ریت کو انگلیوں سے کریدنے پر دو تین انچ گہرائی سے پانی نکل آتا تھا۔ عربی میں بئیر کنویں کو کہتے ہیں اور اسی بناپر شہر کا نام بیروت پڑگیا۔تاہم اب یہ صورتحال نہیں اور سمندر سے بالکل متصل علاقوں کو چھوڑ باقی شہر میں زیرزمین پانی کی سطح نیچی ہوچکی ہے۔
635میں مسلمان تاجر یہاں آئے۔مقامی آبادی کو پہلی بار ایسے بیوپاریوں سے واسطہ پڑا جو صارف کو اپنے مال کی خرابی خود ہی بتادیتے ،ڈندی مارنے کے بجائے جھکتا تولتےاور بازار کی روایات کے برخلاف وہ مال بیچنے کیلئے قسمیں بھی نہیں کھاتے تھے۔ جلد ہی انکی دکانیں دعوت کا مرکز بن گئیں اور آنے والے گاہک معیاری اشیا کے ساتھ ہدائت کی عظیم الشان دولت لے کر واپس لوٹنے لگے۔
1187 میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیروت فتح کیالیکن صرف 10 سال بعد جرمن صلیبیوں نے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ کہا جاتا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا لیکن صلاح الدین کا اقتدار بیروت میں مسیحیت کا سنہرا دور کہلاتا ہے جب انکے مبلغین نے سارے دیہی بیروت کو اپناہمنوا بنالیا۔ 1512 میں لبنان عثمانی خلافت کا حصہ بن گیااور رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سلطان سلیم اول کے حکم پر بیروت شہرکا نظم و نسق دروز وں کے حوالے کردیا گیا جو موحدین کہلاتے تھے۔
مذہبی و ثقافتی اعتبار سے بیروت اور سارا لبنان انتہائی متنوع ہے۔ مسلمانوں کی آبادی 52 فیصد ہے اور سنی شیعوں کا تناسب تقریباً برابر ہے۔مسیحی کل آبادی کا 42 فیصدہیں جن میں سے ایک چوتھائی قبطی ہیں۔اقتدار میں بھی تمام مذاہب کو منصفانہ حصہ دیا گیا ہے، صدر مسیحی، وزیراعظم سنی اور اسپیکر شیعہ منتخب کئے جاتے ہیں۔ آزادی کے ساتھ ہی فرانس کی شدید مخالفت کے باجود لبنان نے اپنے عرب تشخص کا اعلان کیا اور اسرائیلی ریاست وجود میں آنے پراکثر مسلمان ملکوں کی طرح لبنان نے بھی اسےآج تک تسلیم نہیں کیا۔سرکاری طور پر لبنان اسرائیل کو اپنا دشمن نمبر ایک سمجھتا ہے۔
آزادی کے بعد شہر پھلتا پھولتا رہا اور بیروت کی وہی حیثیت ہوگئی جو آجکل دبئی کی ہے۔1975 میں سازش کامیاب ہوئی اور مسیحی و مسلمان ایکدوسرے کے خلاف صف ارا ہوگئے۔ 15 سال جاری رہنے والی خانہ جنگی نے بیروت کو ملبے کا ڈھیر بنادیا۔اسی دوران 1978 میں شامی فوج بھی در آئی اور حملوں میں مشرقی بیروت کا مسیحی شہر الاشرفیہ زمیں بوس ہوگیا۔ خونریزی کا سب سے افسوسناک پہلو مسیحیوں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی لہر تھی۔ سینکڑوں برس سے برداشت و رواداری کی مثال بنا رہنے والا بیروت مسیحی مشرق اور مسلم مغرب میں تقسیم ہوگیا۔ تاہم مسلمان اور عیسائی قیادت نے مکالمہ برقرار رکھا اور مفاہمتی کوششٰیں جاری رہیں۔
1990میں خانہ جنگی ختم ہوئی اور بیروت کی تعمیر نو کا آغاز ہوا، شہر کی رونقیں بحال ہوگئیں اور بیروت کے خوبصورت ساحل پرسیاحوں کاہجوم بڑھنے لگا۔اسی کیساتھ عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی میں بھی کمی آگئی۔ بیروت کی خوشحالی کچھ عناصر کو ایک آنکھ نہ بھائی۔ دشمنوں کے علاوہ دوستوں کو بھی تیزی سے ابھرتے بیروت پر سخت تشویش تھی ۔ خیال تھا کہ بیروت جلد ہی مشرق وسطیٰ کا دوبئی بن جائیگاکہ شاندار موسم اور متنوع جغرافیہ کے اعتبار سے دوبئی کے ریگستان کا باغ و بہار بیروت سے کوئی مقابلہ نہ تھا۔
2005میں وزیراعظم رفیق حریری قتل کردئے گئے۔ لوگوں کو شک ہے کہ یہ سب شام کا کیا دھراتھا، چنانچہ لبنان سے شام کے انخلا کی تحریک چلی۔آخر کار شامی فوج واپس چلی گئی، بیروت کی تعمیر کا کام تیز ہوااور جلد ہی ساحلوں پر فیشن ایبل ہوٹل آباد ہوگئے۔ اسی دوران 2006میں اسرائیل و لبنان کے درمیان براہ راست تصادم شروع ہوا۔ اسرائیل، لبنانی فوج کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے میں ناکام رہا۔ لبنانی فوج نے اسرائیل کی زبردست مزاحمت کی اور حزب اللہ کی مددسے لبنانی فوج نے حملہ آوروں کو پیچھے دھکیل دیا۔ اسرائیل کے دفاعی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ یہ پہلی جنگی تھی جس میں اسرائیل فوج پسپائی پر مجبور ہوئی۔بم دھماکوں اور دہشت گردانہ کاروائیاں اور اسرائیل کے میزائیل حملوں کے باوجود بیروت کی رونقیں بحال رہیں کہ 4 اگست کا واقعہ پیش آگیا۔
سوال یہ ہے کہ سیاہ منگل کو جو کچھ ہواوہ اہل بیروت کی قسمت کا لکھا تھا یا اسکے پیچھے کچھ پردہ نشین بھی ہیں۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق بندرگاہ پر امونیم نائٹریٹ کے قریب ہی کسی گودام میں اتشبازی کا سامان رکھا تھا اور وہاں پھٹنے والے ایک پٹاخے نے امونیم نائٹریٹ کے پہاڑ کو دہکادیا۔ اخلاقی و قانونی اعتبار سے اس حادثے کے ذمہ دار بندرگاہ کے وہ اعلیٰ حکام ہیں جنھوں نے خوفناک کیمیکل ایک طویل عرصے سے وہاں رکھا ہوا تھا اور گودام کے گرد حفاظتی اقدامات بھی واجبی نوعیت کے تھے اور سب سے بڑھ کر جلد بھڑک اٹھنے والے مواد کے قریب آتشبازی کا سامان بھی رکھدیا گیا۔ لبنانی حکومت نے بندرگاہ کے تمام اعلی اہلکاروں کو تحقیقات مکمل ہونے تک انکے گھروں پر نظر بند کردیا ہے۔
اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ یہ قیامت امونیم نائٹریٹ کو چنگاری لگنے سے ٹوٹی اور یہ چنگاری پٹاخے سے پھوٹی تھی۔ لیکن یہ پٹاخہ پھٹاکیسے؟؟ نظریہ سازش پر یقین رکھنے والے انگلی سے جنوب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہے کہ۔ 'سب بلاوں کا ہے جہاں سے نزول ، یہ بلا بھی وہیں سے آئی ہے'۔ یہ مفروضہ بے بنیاد بھی نہیں بلکہ واقعے سے پہلے اسرائیل وزیراعظم کی تقریر اور دھمکی آمیز ٹویٹ سے شبہہ کو تقویت ملتی ہے
2018 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں وزیراعظم نیتن یاہو نے بیروت کا نقشہ دکھاتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ حزب اللہ نے اس مقام پر ہتھیار چھپا رکھے ہیں۔ دھماکے کا مقام اس جگہ سے چند کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔ دوسری طرف حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کا کہنا ہے کہ حزب اللہ شہروں میں اسلحہ نہیں رکھتی ہماری تمام عسکری سرگرمیاں دشمن کے سر پر ہیں۔ انھوں نے بہت صراحت سے کہا 'ساری دنیا کو معلوم ہے کہ ہمارا 'عدو مبیں' کون ہے اورا اسکی گوشمالی اور ہمہ وقت تیار رہنے کیلئے ہم سارا اسلحہ سرحد پر رکھتے ہیں'
حادثے سے ایک دن پہلے اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے ایک ٹویٹ میں شام پر حالیہ حملے کاحولہ دیتے ہوئے کہا کہ
'ہم نے (دہشت گردوں کے ) ٹھکانے کو نشانہ بنایا، انھیں بھیجنے والوں پر حملہ کیا۔ ہم اپنے دفاع کیلئے آخری حد تک جائینگے اور حزب اللہ سمیت تمام (دہشت گردوں ) کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے '
صدر ٹرمپ نے دھماکے کے فوراً بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ بیرونی حملہ بندرگاہ پر موجود اتشگیر مادے اور دھماکہ خیز مواد کو تیلی دکھانے کا سب ہوسکتاہے۔ لبنان کے صدرمشل عون نے بھی اس کاروائی میں بیرونی ہاتھ کا شبہہ کا ظاہر کیا ہے
جائزے کے مطابق لبنانیوں کا خیال ہے کہ اگر اسرائیل براہ راست ملوث نہیں تب بھی کسی نہ کسی اعتبار سے نیتن یاہو نے سہولت کاری ضرور کی ہے۔ جب بیروت سے خیر سگالی کا اظہار کرتے ہوئے تل ابیب بلدیہ کی عمارت پر روشنی سےلبنان کا پرچم بنایا گیا تو اسکے خلاف سوشل میڈیا پر زبردست ردعمل سامنے آیا۔ دوتبصرے جو بے حد مقبول ہوکر ٹرینڈ بنے وہ کچھ اسطرح ہیں
'آج وہ ہمارا جھنڈا لہرارہے ہیں لیکن بہت جلد ہمارے ملک پر حملہ آور ہونگے'
'(تم روشنی سے ہمارے پرچم لہراو) ہم تل ابیب کو اپنے راکٹوں سے روشن کرینگے'
لبنانیوں کے ان تحفظات کے ازالے کیلئے اسرائیل کے حامی بھی سرگرم ہیں اور کہا جارہا ہے کہ حزب اللہ امونیم نائٹریٹ سے دستی بم تیار کرنا چاہتی تھی اسی لئے سیفٹی حکام کے اصرار کے باوجود اسے بندرگار سے نہیں ہٹایا گیا
حقیقت کیا ہے اس سلسلے میں تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے کچھ کہنا مشکل ہے اور شائد حقیقت کبھی سامنے نہ آسکے۔اب تک 9/11کے حقیقی ذمہ داروں کا پتہ نہ چل سکا۔ واقعہ میں استعمال ہونے والے جہازوں پر سوار مسافروں کی فہرستوں میں مسلمان ناموں کی بنیاد پر رپورٹ تصنیف ہوئی اور پھر اسی مفروضے پر لاکھوں معصوموں کو تہہ تیغ کردئے گئے لیکن افغانستان و پاکستان سے پکڑ کر گوانتانامو لائے جانیوالے سینکڑوں 'ملزمان' کے مبینہ اعترافی بیانات کے باوجود اب تک کسی ایک فرد کے خلاف فرد جرم تک نہ ترتیب نہ دی جاسکی۔ بے چہرہ جنگ اور سائے کے تعقب میں مجرم و معصوم کا کیا پتہ چلتا ہے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 14 اگست 2020
No comments:
Post a Comment