ترکی کے خلاف صف بندی ۔ یونان، مصر، اسرائیل اور اماراتی اتحاد کو یورپی یونین ی آشیرواد
بحر روم میں کشیدگی عروج پر پہنچتی نظر آرہی ہے۔
ایتھنز خلیج یونان سے قبرص تک کے علاقے میں موجود قدرتی وسائل کو یونان اور قبرص کا مشترکہ سرمایہ سمجھتا ہے جبکہ ترکی کا موقف ہے کہ ترک ساحل سے شمالی قبرص تک کا علاقہ ترکی اور TRNCکی ملکیت ہے۔ شمالی قبرص کو پاکستان اور چند دوسرے ممالک کے علاوہ دنیا تسلیم نہیں کرتی۔ ترکی نے لیبیا سے بھی معاہدہ کیا ہے جسے یونان تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ یونان اورترکی کے درمیان کشیدگی کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے لیکن جنرل السیسی اور امارات کے محمد بن زید محض ترک دشمنی میں یونان کی حمائت کررہے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے ترکی نے مشرقی بحر روم میں تیل و گیس کے وسائل کی منصفانہ تقسیم کیلئے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی تھی اور علاقے میں تلاش کا کام معطل کردیا تھا۔لیکن مصر اور یونان نے ایک معاہدے کے تحت یونا ن و مصر کے درمیان کے سارے علاقےمیں تیل و گیس کی مشترکہ تلاش کا اعلان کردیا۔اسرائیل بھی اس معاہدے کی پشت پناہی کررہا ہے۔اس معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے ترکی نے مساحتِ طبعیاتی ارضیات یاGeophysical Survey کیلئے اپنا جہاز 'عروج رئیس' (Oruc Reis) مشرقی بحر روم بھیج دیا۔
یونان نے پچھلے ہفتے اعلان کیا کہ وہ اپنے جزیرے Creteکے قریب اگست کے آخری ہفتے میں بحری و فضائی مشقیں کریگا۔ مصر اپنی بحریہ اس مشق کیلئے بھیجے گا اور ساتھ ہی متحدہ عرب امارت کی وزارت دفاع نے بتایا کہ اسکے جنگی طیارے ان مشقوں میں یونان کے شانہ بشانہ ہونگے۔ اسکے لئےفرانس بھی اپنے بحری جہاز بھیج رہا ہے۔ یورپی یونین ان مشقوں کی بھرپور حمائت کررہی ہے۔
ترکی نے مرعوب ہونے کے بجائے ہفتے کو بحر یونان میں بحری و فضائی فوج کی زبردست مشق کرڈالی۔ ان مشقوں میں F-16طیارے، راکٹ بردار ڈرون، سمندر سے زمین پر مارکرنے والی آبدوزوں کے ساتھ ترک بحریہ کے نئےغیر مرئی (Stealth)تباہ کن جہازوں نے حصہ لیا۔ اسی کے ساتھ علاقے میں عروج رئیس کے قیام میں بھی ایک ہفتہ توسیع کا اعلان کردیاگیا، پہلے کہا گیا تھا کہ سروے 23 اگست تک مکمل کرلیا جائیگا۔
ترکی نے جزیرہ Creteکے اردگرد اپنی بحریہ کو چوکس کردیا ہے اور وزارت دفاع نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اگر ترک تنصیبات اور Seismic Shipسمیت اسکے اثاثوں کیخلاف مہم جوئی کی گئی تو بحرروم کوآگ کے سمندر میں تبدیل کردیا جائیگا۔ ترک حکومت کا کہنا ہے کہ وہ تنازعے کے پرامن حل کیلئے بات چیت پر تیار ہے لیکن انقرہ 'اپنے سمندر' پر کسی کی بالادستی قبول نہیں کریگا۔ صدر ایردوان کا کہنا ہے کہ عظیم ترکی کو اسکے ساحلوں پر محدود کردینے کا خواب دیکھنے والوں کو اپنی حقیقت بہت جلد معلوم ہوجائیگی۔
اتفاق سے اسی دوران امریکی بحریہ کا جہازUSS Hershel Woodyبھی Creteکے قریب پہنچ گیا ہے جبکہ یورپی یونین اور روسی بحریہ کے جہاز بھی علاقے میں موجود ہیں۔کچھ دن پہلے علاقے میں یونانی اور ترک جہاز میں ٹکربھی ہوچکی ہے۔ تاہم یہ ایک حادثہ تھا جس میں کس قسم کا تقصان نہیں ہوا۔
شدید کشیدگی کے ماحول میں جنگ و جدل کے سامان سے آراستہ اتنی بڑی تعداد میں عسکری اثاثوں کی موجوگی علاقائی بلکہ عالمی امن کیلئے اچھی خبر نہیں۔
زبردست 👌
ReplyDelete