Thursday, August 6, 2020

یورو 5! ہتھیلی پر سرسوں نہ جمائیں

یورو 5! ہتھیلی پر سرسوں نہ جمائیں

وفاقی حکومت نے  اس سال ستمبر سے  ملک بھر میں Euro-5 پیٹرول استعمال کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اس ضمن میں تیل فروخت کرنے والی کمپنیوں کو ہدایات بھی جاری کردی گئی ہیں۔

آج تھوڑی سی 'سنجیدہ'گفتگو اس اہم موضوع پر۔

ہمیں ڈر ہے کہ چند ہی دنوں بعد پاکستانی میڈیا پر یورو پیٹرول موضوع سخن بن جائیگا جسکے بعد اینکرز اور تبصرہ نگار اسی نوعیت کی گل افشانیاں فرماینگے جسکا عذاب ہم نے گزشتہ برس سمندر میں گیس کیلئے کنویں کی کھدائی کے دوران  سہا تھا۔

یورو معیار دراصل گاڑیوں میں استعمال ہونے والے ماحول دوست ایندھن (پیٹرول، ڈیزل)کی درجہ بندی ہے۔ پہییہ  رواں دواں رکھنے کیلئے جب گاڑیوں کے انجن ایندھن پھونکتے ہیں تو جلے ہوئے ایندھن کی باقیات دھویں کی شکل میں Exhaustپائپ سےخارج ہوتی ہیں۔ دھویں میں مضر صحت مواد کی موجودگی کو یورو کے ساتھ عدد لگاکر ظاہر کیا جاتا ہے۔ ماحول کی آلودگی اورحیاتیاتی صحت کے اعتبار سے یورو 1 پیٹرول سب سے ناپسندیدہ اور یورو 6سب سے بہتر ہے۔

میری اطلاع کے مطابق اسوقت پاکستان میں یورو 2 ڈیزل اور پیٹرول استعمال ہورہا ہے۔ ماہرین سے اصلاح کی درخواست ہے۔

سوال یہ ہے کہ تیل آلودہ کیوں ہوجاتا ہے؟

پیٹرول و گیس کا کیماوی نام ھائیڈروکاربن (Hydrocarbon)ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے  یہ نامیاتی مرکب ہائیڈر وجن اور کاربن کے ملاپ سے وجود میں آتا ہے۔ اسکا بنیادی سالمہ کاربن کے ایک اور ہائیڈروجن کے 4 جوہروں پر مشتمل ہوتا ہے جسے میتھین یا خشک گیس (Dry Gas)کہتے ہیں۔ سوئی گیس جو آپکے آتشدان دہکاتی اور چولہے جلاتی ہے وہ دراصل میتھین ہے جسکے جلنےپر ہلکے نیلے رنگ کا شعلہ دکھائی دیتا ہے۔ جیسے جیسے ہائیڈروکاربن کے سالمے میں کارین کی تعداد بڑھتی ہے اسکے وزن اور گیلے پن میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ گاڑیوں کیلئے جو ایندھن استعمال ہوتا اس میں کاربن کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔

زمین سے نکلنے والاخام تیل بالکل خالص ہائیڈروکاربن نہیں ہوتا۔اس میں گندھک، کاربن ڈائی آکسائیڈ، نائٹرروجن اور کچھ دوسری دھاتیں اور ہوا سم ذرات یا Aerosol Particlesشامل ہوتے ہیں۔دنیامیں  تیل و گیس کے ذخائر میں کثافت کی مقدار مختلف  ہے۔ مثلا لیبیا کے سدرہ لائٹ تیل میں کثافت بہت کم ہے جبکہ ایران کے کئی ذخائر سے نکالا جانیوالا تیل نسبتاً زیادہ کثیف ہے۔ تیل کی پیداوارو ترسیل کے دوران تیل کو  بہت سی کثافتوں سے پاک کرلیا جاتا اور ریفائنری مٰیں خام تیل سے پیٹرولم ڈیزل اور دوسری مصنوعات کی کشید کے دوران باقی مضر صحت مواد کو بھی علیحدہ کرلیا جاتا ہے۔ لیکن انسان کا علم محدود ہے اسلئے بے پناہ قابلیت اور محنت کے باوجود ہمارے مہندسین اور ماہرین ایندھن کو 100 فیصدپاک یا بالکل صاف کرنے میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکے۔خوب سے خوب تر کی تلاش اور کامیابی کا سفر جاری ہے۔ یورو معیارات اسی جدوجہد کی حوصلہ افزائی اور انسانی کوششوں کو مہمیز لگانےکی ایک شکل ہے۔

مثال کے طور پر جو ایندھن اسوقت پاکستان میں استعمال ہورہا ہے اسمیں گندھک کی مقدار 500 فی دس لاکھ یا 0.05فیصد ہےجبکہ یورو 5 پیٹرول میں گندھک کی مقدار10 فی دس لاکھ ہوگی یعنی ایک فیصد کا ایک ہزارواں حصہ یا 0.0001فیصد۔ گاڑیوں میں یورو کے مخلتف برانڈ کے استعمال سے  مضر صحت مواد کے اخراج کا جدول نیچے پیش خدمت ہے۔

اب تک کی گفتگو سے اتنی بات تو واضح ہے کہ یورو 5 پیٹرول و ڈیزل کے استعمال سے ہم ماحول کے نقصانات کو کس حد تک کم کرسکتے لہذا اسکی مخالفت کا کوئی جواز نہیں

تاہم ہر اچھی اور بہتر چیز عام طور سے ذرا مہنگی ہوتی ہے چنانچہ یورو معیار کا ایندھن موجودہ ڈیزل و پیٹرول سے مہنگا ہوگا۔ عام تاثر ہے کہ یورو 5 یورو 2 کے مقابلے میں 6 روپئے فی لیٹر مہنگا ہوگا۔ مہنگائی کے علاوہ کچھ دوسرے نکات کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔

موٹر سازی صنعت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی تک پاکستان میں بنائی جانیوالی گاڑیاں یورو 2کیلئے بنائی گئی ہیں اور یورو 5 کیلئے گاڑی کے انجن اور اخراجی نظام میں کچھ تبدیلی لانی ہوگی۔ بنیادی مسئلہ چکناہٹ یا Lubricationکا ہے۔ یورو 5 CNGکی طرح یورو 3 کے مقابلہ نسبتاً زیادہ خشک ہوتا ہے اسلئے کار کے وہ مقامات جہاں لوہا لوہے سے ٹکراتا یا رگرتا ہے انکی کارکردگی متاثر ہوگی،  چکناہٹ کیلئے موٹر آئل ذرا جلد تبدیل کرنا ہوگا اور اضافی Lubrication کی ضرورت ہوگی۔ سیانے کہہ رہے ہیں پرانی گاڑیوں میں یورو 5 ڈالنے سے ماحول کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا کہ ان انجنوں میں وہ ٹیکنالوجی موجود نہیں  جو اخراج کو کم سے کم کرسکے۔

پاکستان کی ریفائنریاں یورو 5 کشید کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں اور یورو 5 کی صلاحیت حاصل کرنے کے لئے جو تبدیلیاں ضروری ہیں ان میں ایک سال لگ سکتا ہے۔ اسکا مطلب ہوا کہ اب پیٹرولیم مصنوعات درآمد کرنی پڑینگی۔ اسوقت تیل صاف کرنے کے پاکستانی کارخانے ضروت کا چالیس فیصد پیٹرول اور ڈیزل تیار کرتے ہیں۔ اب اگر سو فیصد مصنوعات درآمد کی جائینگی تو اس سے زرمبادلہ کے ذخائر پر اضافی دباو پڑیگا۔ مشرق وسطیٰ کی ریفائنریز میں اتنی گنجائش نہیں کہ پاکستان کی اضافی ضروریات کو پوری کرسکیں اسلئے پیڑول و ڈیزل یورپ سے درآمد کرنا پڑیگا جسکی وجہ سے باربرداری کا خرچ بڑھنے کے علاوہ مال آنے میں وقت بھی زیادہ لگے گا

نامراد کرونا وائرس نے ساری دنیا کی طرح پاکستانی معیشت کا بھی نقصان پہنچایا ہے۔ لاکھوں لوگ بیروزگار ہوگئے ہیں، مہنگائی نے زندگی اجیرن کردی ہے۔ حفاظتی اقدامات کی وجہ سے ہر شعبے کی پیداواری و انتظامی لاگت خاصی بڑھ گئی اسلئے مہنگائی کے جن کو قابو کرن اتنا آسان نہیں۔ ان حالات میں یورو 5 کے نفاذ سے عام افراد کی زندگی مزید مشکل ہوسکتی ہے۔

ان تحٖفظات کے باوجود یورو 5 کی مخالفت کا کوئی جواز نہیں لیکن ایندھن کے پورے نظام کو یکسر بدل دینے کے بجائے یو رو 5 کے استعمال کو بتدریج بڑھانا مناسب ہوگا۔ اس سلسلے میں ہماری تجویز کچھ اسطرح ہے۔

  • پہلے مر حلے میں تمام پیٹرول پمپوں پر یورو 5 بھی فروخت کیا جائے تاکہ نئی گاڑیوں کے مالکان اسے استعمال کرسکیں
  • ریفائریز کویورو 5 بنانے کی صلاحیت حاصل کرنے کیلئے 6 سے 9 مہینے کا ہدف دیا جائے۔ upgradeکے ساتھ  ریفائنریز کی گنجائش میں بھی اضافہ کی کوش کرنی چاہئے تاکہ درآمدات پر انحصار کم کیا جسکے۔
  • کارساز کارخانوں کو بھی کہا جائے کہ اب وہ ایسی گاڑیاں بنائیں جو  یورو 5 کا پورا فائدہ اٹھاسکیں
  • اقدامات پر عملدرآمد کیلئے ریفائنریز اور موٹر ساز کارخانوں کی حوصلہ فزائی اور  موثر نگرانی کرکے یہ  ہدف ایک سال میں حاصل جاسکتا ہے

No comments:

Post a Comment