مشرقی بحر روم میں شدید کشیدگی۔ ترکی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں
یونان، مصر، اسرائیل اور یورپ کی شدید مخالفت کو نظر انداز کرتے ہوئے زمینی ارتعاشات کے اخراج و نمو (Seismic)کاجائزہ لینے والے جدید ترین ترک جہاز 'عروج رئیس' (Oruc Reis) نے مشرقی بحرروم کے 1750 کلومیٹر علاقے میں زیرزمین چٹانوں کی ماہیت، ساخت، تہوں اور طبقات کی ترتیب وغیرہ کا مطالعہ شروع کردیا۔ اس عمل کو سائیینسی اصطلاح میں مساحتِ طبعیاتی ارضیاتGeophysical Surveyکہا جاتا ہے۔ خیال ہے کہ سروے کا کام 23 اگست تک مکمل ہوجائیگا جسکے بعد حاصل کردہ معلومات کی تجزئے اور تشریح میں تین ماہ لگیں گے۔ اگر نتائج امید افزا ثابت ہوئے تو پہلے کنویں کی کھدائی کے آغاز کیلئے دسمبر کا ہدف طئے کیا گیا ہے۔ترک بحریہ کے تباہ کن جنگی جہاز عروج رئیس کو حفاطتی حصار میں لئے ہوئے ہیں۔ ترک وزارت دفاع نے دھمکی دی ہے کہ اگر عروج رئیس کوکام سے روکا گیا تو بحر روم میں آزاد جہاز رانی قصہ پارینہ ہوجائیگی۔
آگے بڑھنے سے پہلے چند سطور جہاز کے نام پر۔ عروج رئیس عثمانی بحریہ کا امیرالبحر (ایڈمرل) تھا جسے بعد میں الجزائر کا گورنر مقرر کیاگیا۔ عروج رئیس کے چھوٹے بھائی خیر الدین بربروس سو لہویں کا مایہ ناز ملاح تھے جنھوں نے بحر روم پر عثمانی اقتدار کو مستحکم کیا۔ ایڈمرل بربروس کی قیادت میں ترک بحری بیڑے نے الجزائر، تیونس اور لیبیا فتح کیا جسکی بناپر انھیں قبودانِ دریا کا منصب عطا ہوا۔ اسکا اردو ترجمہ 'فرمانروائے بحر' ہوسکتا ہے فوجی اصطلاح میں قبودانِ دریا فیلڈ مارشل کا ہم منصب ہے۔
یونان، (یونانی) قبرص، مصر اور اسرائیل مشرقی بحر روم پر ترکی کا حق تسلیم نہیں کرتے۔ انکا کہنا ہے ترکی کو اپنی سرگرمیاں بحر اسود تک محدود رکھنی چاہئیں۔اسی بنا پر یو نان ترکی کو بحر یونان تک بھی رسائی دینے کو تیار نہیں۔ صدر ایردوان اس تجویز پرسخت برہم ہیں۔انکا کہنا ہے کہ عظیم ترکی کو اسکے ساحلوں پر محدود کردینے کا خواب دیکھنے والوں کو اپنی حقیقت جلد ہی معلوم ہوجائیگی۔ انکا موقف ہے کہ قبرص تک کا سمندری علاقہ ترکی اور ترک قبرص (TRNC)کاحصہ ہے اور جنوب میں لیبیا کے ساحلوں تک تمام وسائل برادر ملکوں کی مشترکہ ملکیت ہیں۔اپنے دعوے کو یقینی بنانے کیلئے ترک بحریہ ای این ائی اور امریکی تیل کمپنیوں کے کئی رگ بردار جہازوں (drill-ships)کو علاقے سے نکال چکی ہے۔
یونانی حکومت نے عروج رئیس کی سرگرمیوں کو دراندازی اور بحری قزاقی قراردیا ہے۔ یونانی وزیراعظم نے ترک جارحیت کو لگام دینے کیئے یورپی یونین کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ فرانس اور اٹلی بھی یونان کے موقف کے حامی ہیں جبکہ جرمنی نے ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ جرمنی کی پیشکش کا جواب دیتے ہوئے ترک وزیرخارجہ مولت داود اوغلو نے کہا کہ انکا ملک تمام تنازعات کے منصفانہ حل کیلئے بات چیت پر تیار ہے لیکن ترکی کے خلاف شیطانی صف بندی سے یونان و جنرل السیسی کی نیت کا فتور ظاہر ہوتا ہے۔ ترک وزیرخارجہ نے کہا کہ مشرقی بحر روم پر مذاکرات سے پہلے مصر اور یونان اپنا سمندری حد بندی (maritime delamination)کا یکطرفہ معاہدہ دریابرد اور ترک لیبیا معاہدے کی مخالفت ختم کرنے کا اعلان کریں۔
اپنی بحریہ کے کمانڈروں سے خطاب کرتے ہوئے ترک وزیردفاع نے کہا ہمیں صف بندیوں اور گیڈر بھبکیوں سے ڈراکر ساحل تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔ ویڈیو کانفرنس کے بعد رائٹرز سے باتیں کرتے ہوئے ترک وزیردفاع نے توقع ظاہر کی کہ یونان اور مصر تہذیب کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرت کے ذریعے بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں اس مسئلے کا سب کیلئے قابل قبول حل تلاش کرنے میں جرمنی کی پیشکش کا مثبت و مخلصانہ جواب دینگے۔ انھوں نے اسرائیل اور فرانس کا نام لئے بغیر کہا کہ جو لوگ یونان و مصر کو شہہ دے رہے ہیں ہمیں انکے احوال و مقامات اچھی طرح معلوم ہیں۔
No comments:
Post a Comment