کملاہیرس ! جو بائیڈن کا انتخاب
ڈیموکریٹ پارٹی کے (یقینی) صدارتی امیدوار جو بائیڈن نےکملا ہیرس کو نائب صدرکیلئے امیدوار نامزد کردیا۔ 55 سالہ کملا نائب صدارت کیلئے امریکی تاریخ کی تیسری خاتون امیدوار ہونگی۔ اس سے پہلے 1984 میں سابق نائب صدر والٹر مانڈیل نے نائب صدارت کیلئے جیرالڈین فرارو اور 2008میں انجہانی سینیٹر جان مک کین نے محترمہ سارا پیلن کو نائب صدارت کیلئے نامزد کیا تھا۔ بدقسمتی سے یہ دونوں خواتین ہارنے والے پینل کا حصہ ثابت ہوئیں۔
کملا ہیرس امریکی تاریخ کی پہلی سیاہ فام اور ہندوستانی نژاد خاتون ہیں جنھیں نائب صدرکیلئے امیدوار نامزد کیا جارہا ہے۔ کملا کی والدہ ڈاکٹر شیا مالا گوپلان مدراس، ہندوستان سے اعلی تعلیم کیلئے جامعہ کیلی فورنیا برکلے آئی تھیں جہاں انکی ملاقات جمیکا (Jamaica)کے ڈاکٹر ڈانلڈ ہیرس سے ہوئی۔ جلد ہی دونوں نے شادی کرلی۔ کملا کی پیدائش کے صرف سات سال بعد انکے والدین کی طلاق ہوگئی۔ جسکے بعد کملا اور انکی چھوٹی بہن مائرہ اپنی ماں کیساتھ رہنے لگیں۔ انکی والدہ مذہبی خاتون تھیں اور وہ رواداری کامظاہرہ کرتے ہوئے اپنی بیٹیوں کو ہندومندر کے ساتھ انکے پتاجی کےسیاہ فام گرجا بھی لے جایا کرتی تھیں۔کملا کو کم عمری سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ کہتی ہیں کہ بچپن میں سفید فام بچے انکے ساتھ نہیں کھیلتے تھے۔ کملا کی والدہ 2011میں انتقال کر گئیں۔
کملا ہیرس نے امریکی دارالحکومت کی جامعہ ہورورڈ (Howard) سے سیاسیاست اور معاشیات میں بی اے کیا۔ احباب کی وضاحت کیلئے عرض ہے کہ Howardاور جامعہ ہارورڈHarvardمحتلف تعلیمی ادارے ہیں۔ ہارورڈ میسیچیوسٹس کے شہر بوسٹن میں ہے۔ Howardسیاہ فام تعلیمی ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ بی اے کے بعد کملا نے جامعہ کیلی فورنیا سان فرانسسکو سے قانون کی سند حاصل کی۔ کملا کی اب تک اپنی کوئی اولاد نہیں لیکن انکے شوہر ڈگلس ایمہوف کی سابق اہلیہ کے دو بچے انکے ساتھ رہتے ہیں۔ کملا کے بے پناہ پیار کی وجہ سے انکے سوتیلے بچے (ایک بیٹی اور ایک بیٹا) انھیں مومالا (مام کمالا) کہتے ہیں۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد محترمہ کملا المیڈا کاونٹی کی نائب ایڈوکیٹ جنرل (District Attorney)مقرر ہوئیں۔ 2003 میں انھیں سان فرانسسکو کی سرکاری وکیل (District Attorney)منتخب کرلیا گیا،جبکہ 2010 کے انتخابات میں کملا کیلی فورنیا کا اٹارنی جنرل منتخب ہوئیں۔ 2016 میں جب ڈیموکریٹک پارٹی کی سینئر سینیٹرباربرا باکسر نے عملی سیاست کو خیر باد کہا تو انکی خالی کردہ نشست پر کملا ہیرس سینیٹر منتخب ہوگئیں۔ یہ وہی انتخاب تھا جس میں ڈانلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوئے تھے لیکن انھیں کیلیفورنیا میں بری طرح شکست ہوئی۔
2018بکے وسط مدتی انتخابات کے فوراً بعدکملا ہیرس نے 2020 کے صدارتی انتخاب کیلئے مہم شروع کردی۔ وہ جو بائیڈن کی سخت مخالف تھیں اور ایک مباحثے میں انھوں نے جو بائیڈن پر نسل پرستی کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا۔ انکا کہنا تھا کہ جب وہ چھوٹی تھیں تو کملا محلے کے اسکول جانے کے بجائے بس پر بیٹھ کر بہت دور واقع ایک اسکول جاتی تھیں کہ محلے کے سفید فام اسکول میں انکا داخلہ ممنوع تھا۔ کملا ہیرس نے الزام لگایا کہ اسوقت جو بائیڈن سینیٹر تھے اور انھوں نے اس نسلی امتیاز کے خلاف آواز بلند نہیں کی۔ اس موقع پر کملا اور جوبائیڈن کے درمیان سخت تلخ کلامی ہوئی اور مباحثے کے بعد وہ جو بائیڈن سے ہاتھ ملائے بغیر پیر پٹختی اسٹیج سے اتر گئیں۔
پرائمری انتخابات کے دوران کملا کی کارکردگی شروع ہی بہت خراب تھی۔ چنانچہ وہ نوشتہ دیوار پڑھ کر جلد ہی دستبردار ہوگئیں۔ مہم ختم کرتے ہوئے کملا نے کہا کہ انکے پاس انتخابی مہم جاری رکھنے کیلئے مالی وسائل نہیں۔ کچھ عرصے بعد انھوں نے جو بائیڈن کی غیر مشروط حمائت کا اعلان کردیا۔ جو بائیڈن نے انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ نائب صدارت کیلئے کسی خاتون کو نامزد کرینگے۔ مینیسوٹا میں جارج فلائیڈ کی موت کے بعد سے ان پرکسی رنگدار خاتون کو نامزد کرنے کیلئے دباو تھا۔ اس سلسلے میں کملا ہیرس کے علاوہ قومی سلامتی کیلئے صدر اوباما کی مشیر ڈاکٹر سوزن رائس، اٹلانٹا کی رئیس شہر محترمہ کیشا لانس باٹم اور سینٹر ٹیمی ڈک ورتھ کا نام لیا جارہاتھا۔
کملا ہیرس ہیں تو نسلی اعتبار سے سیاہ فام لیکن اٹارنی اور مستغیث (Prosecutor)کی حیثیت سے انھوں نے زیادتی اور نسلی امتیاز کا مظاہرہ کرنے والے پولیس افسران کا دفاع اور چھوٹے چھوٹے جرائم پر عدالتوں سے سخت ترین سزاوں کامطالبہ کیا۔ 1994 میں منشیات اور پرتشدد جرائم کے سد باب کیلئے صدر بل کلنٹن نے عادی وپیشہ ور مجرموں کو سخت سزادینے کیلئے Habitual Offenders Lawsمنظورکیا جسکے مطابق تین چھوٹی واردات کے مرتکب افراد کو خطر ناک و ناپسندیدہ عنصر سمجھ کر انکے لئے عدالتوں سے سخت سزا کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ یہ ضابطہ تین خلاف ورزی یا Three-strikes laws کے نام سے مشہور اور سیاہ فاموں میں بدنام ہے۔ پولیس سیاہ فام بچوں کو دوکان سے چاکلیٹ کی ٹکیہ چرانے، شراب خریدنے کیلئے جعلی شناخت دکھانے، اسکول میں لڑائی جھگڑے، آدھی رات کے بعد آوارہ گردی ، سڑک پر زیبرا کراسنگ کو نظر انداز کرکے سڑک پار(jay walking)کرنے جیسے تین چھوٹے الزامات میں ملوث کرکے ان کیلئے سخت سزاوں کا مطالبہ کرتی ہے۔ امریکی جیلوں میں ہزاروں کم عمر سیاہ فام اور ہسپانوی نوجوان 'تین خلاف ورزیوں' کے الزام میں طویل سزا بھگت رہے ہیں۔ سرکاری وکیل کی حیثیت سے کملا نے کم عمر رنگدار بچوں کو سخت سزائیں دلوائیں۔
کیا کملا ہیرس کو ساتھ ملاکر جو بائیڈن نے انتخابات میں اپنی پوزیشن بہتر کرلی ہے؟ اس بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہے۔ بظاہر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کرونا وائرس اور نسلی ہم آہنگی آنے والے انتخابات کے فیصلہ کن نکات ہونگے۔ کرونا وائس کے حوالے سے صدر ٹرمپ شدید دباومیں ہیں جبکہ نسلی امتیاز بلکہ منافرت کے باب میں بھی امریکی فکر مند نظر آرہے ہیں۔
آنے والے انتخابات میں سیاہ فام، ہسپانوی اور رنگدار لوگوں کے ووٹ بڑی اہمیت کے حامل ہیں اور ان لوگوں کو ووٹ ڈالنے پر آمادہ کرنا جو بائیڈن کی کامیابی کیلئے بہت ضروری ہے۔ دیکھنا ہے کہ شمالی کیرولینا، فلوریڈا، پینسلوانیہ، وسکونسن، مشیگن، اوہایو، الی نوائے جیسی ریاستوں میں جہاں گھمسان کا مقابلہ متوقع ہے سیاہ فام ووٹروں کو گھروں سے نکالنے میں کملا ہیرس کتنی کامیاب رہینگی۔ چار سال قبل ہیلری کلنٹن ان ریاستوں میں اپنے حامیوں کو ووٹ ڈالنے پر آمادہ کرنے میں ناکام رہی تھیں جو انکی شکست کی وجہ بنی ورنہ انھوں نے مجموعی طور پر صدر ٹرمپ سے 25 لاکھ ووٹ زیادہ لئے تھے۔
جہاں تک ووٹ ڈالنےکا سوال ہے تو اب تک طریقہ انتخاب پر بھی دونوں جماعتٰیں یکسو نہیں بلکہ انکے درمیان اختلاف کی خلیج بہت گہری ہے۔ڈیموکریٹک پارٹی کرونا وائرس کے پس منظر میں ڈاک کے ذریعے انتخاب کا مطالبہ کررہی ہے لیکن صدر ٹرمپ کو ڈر ہے کہ ڈاک کے ذریعے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندھلی ہوگی۔
No comments:
Post a Comment