بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیبِ داستاں کیلئے
پاکستانی میڈیا پر کچھ دنوں سے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان داغ مفارقت کی افواہ عروج پر ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اسلام آباد اپنا سیاسی قبلہ تبدیل کررہا ہے۔
چائے کی پیالی سے امڈنے والے طوفان کا آغاز اسوقت ہوا جب گزشتہ دنوں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا ایک غیر معمولی بیان سامنے آیا۔ غیر معمولی اس اعتبار سے کہ شاہ صاحب ٹھنڈے مزاج کے آدمی ہیں اور اسقدر سنبھل سنبھل اور ٹہر ٹہر کر بلکہ الفاط چباچبا کر بولتے ہیں کہ تصنع کا گماں ہوتا ہے۔ اپنے بیان میں قریشی صاحب نے او آئی سی کی سرد مہری پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر اور بابری مسجد کے معاملے پر اگر سعودی عرب اپنا کلیدی کردار ادا کرنے کو تیار نہیں تو وہ وزیراعظم عمران خان کو مشورہ دینگے کہ پاکستان مسلمان ملکوں کا اجلاس طلب کرے چاہے سعودی عرب اس پر تیار ہو یا نہ ہو۔
قریشی صاحب کے بگڑے تیور نے سفارتی فضا میں ارتعاش پیدا کردیااور سوشل میڈیا پر ایسا لگا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے سات دہائیوں پر مشتمل تعلقات اب قصہ پارینہ بننے کو ہیں۔
اسی کیساتھ یہ اطلاع بھی آئی کہ سعودی عرب نے پاکستان کو ادھار تیل دینا بند کردیا ہے اور 2018 میں دئے جانیوالے 3 ارب ڈالر واپس مانگ لئے ہیں۔
سفارتی سطح پر کیا کھچڑی پک رہی ہے اس بارے میں ہمیں کچھ نہیں معلوم لیکن ادھار تیل اور نقدی کی واپسی کوئی غیر معمول واقعہ نہیں۔ اس حوالے سے کچھ حقایق احباب کیلئے
2018 کے آغاز پر سعودی عرب نے پاکستان کیلئے 6.2ارب ڈالر کا امدادی پیکیج منظور کیا تھا۔ جن میں سے 3 ارب ڈالر اسٹیٹ بینک میں جمع کرائے گئے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ رقم قرض نہیں تھی بلکہ زرمبادلہ کے ذخاٗئر کو بڑھاکر اسٹیٹ بینک کی ساکھ کو بہتر کرنے کی ایک کوشش تھی۔ گزشتہ حکومت کی بدعنوانیوں اور بے ضابطگیوں کی وجہ سے ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان کا خزانہ خالی ہے اور ضروری درآمدات کیلئے ڈالر میسر نہیں۔ معاہدے کے تحت سعودی عرب نے یہ رقم نومبر 2019 میں نکال لینے کا عندیہ دیا تھالیکن بعد میں واپسی کی مدت جنوی 2021 تک بڑھادی گئی۔ اسٹیٹ بینک نے اس میں سے ایک ارب ڈالر گزشتہ ہفتے واپس کردیئے اور بقیہ 2 ارب اگلے تین مہینوں تک واپس کردئے جائینگے۔ 3 ارب کی واپسی سے پاکستان کی معیشت یا زرمبادلہ کے ذخائر پر کوئی منفی یامثبت اثر نہیں پڑیگا۔ اسلئے کہ یہ ایک بینکاری کا سادہ سا معاملہ ہے یعنی صارف اپنی جمع شدہ رقم نکال رہا ہے۔
اسٹیٹ بینک میں پیسہ رکھوانے کے ساتھ ہی سعودی عرب نے پاکستان کو 3.2ڈالر مالیت کا خام تیل ادھار دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اس سال مئی تک پاکستان نے اس مالیت کا تیل حاصل کرلیا اور گزشتہ تین ماہ سے پاکستان سعودی تیل نقد خرید رہا ہے۔ یعنی ادھار ختم ہونے والی بات بھی کسی اعتبار سے چشم کشا نہیں۔ خبر ہے کہ اگلے ماہ سعودی ارامکو کے بورڈ آف گورنرز کا اجلاس ہورہا ہے جس میں پاکستان کیلئے ادھار تیل کی سہولت میں توسیع پر غور ہوگا۔ ظہران کے صحافتی ذرایع کا کہنا ہے شائد مزید 2 ارب ڈالر کا تیل ادھار مل جائے۔
سعودی عرب کی طرح متحدہ عرب امارات نے بھی 6.2ارب ڈالر کے پیکیج کا اعلان کیاتھا لیکن بعد میں ابوظہبی نے ادھار تیل کی پیشکش واپس لے لی اور صرف 2 ارب ڈالر اسٹیٹ بینک میں جمع کرائے۔
اس بنیاد پر ہمارا خیال ہے کہ محمود قریشی صاحب کی تقریر سے راستے جداہونے کا تاثر رائی کے پہاڑ سے زیادہ کچھ نہیں۔ کشمیر کے حوالے سے مقتدرہ نے ٹالنے اور نظر انداز کرنے کی پالیسی اختیار کررکھی ہے لیکن مرزاانیس کی طرح یہ عفیفہ آبگینوں کوٹھیس بھی نہیں لگانا چاہتی۔ بازو پر سیاہ پٹیاں، سرینگر ہائی وے اور نئے نقشے کی طرح قریشی صاحب کی برہمی و دھمکی بھی خیالِ خاطرِ احباب اور موذیوں کا منہہ بند کرنے کیلئے تھی جسے صحافتی اصطلاح میں Public Consumptionکہا جاتا ہے۔ دنیائے صحافت کے کچھ منچلے کہہ رہے ہیں کہ فرمائشی tough talk سے پہلے ریاض کو اعتماد میں لیا جاچکا ہے۔
کون کہتا ہے کہ ہم تم میں جدائی ہوگی
Agreed Sir!
ReplyDeleteشکریہ
DeleteZaberdast tajzeaa.
ReplyDeletesir you write in too much typical urdu which sometime difficult to understand. will you please write in simple Urdu as we read in different Urdu news paper
ReplyDeleteانشااللہ کوشش کرونگا
Delete