ہیروشیما
اور ناگاساکی
آج 6 اگست انسانیت کی برسی ہے جب 75 برس پہلے آج ہی کے دن جاپان کے شہر ہیروشیما
پر انسانی تاریخ کا پہلا ایٹم بم گرایا گیا۔ بمباری امریکی طیارے سے کی گئی لیکن
کاروائی سے پہلے برطانیہ کو بھی اعتماد میں لیا گیا۔ اس بم کیلئے عملی تجربہ ایک
ماہ پہلے امریکی ریاست نیو میکسیکو کے صحرا میں کیا گیا تھا۔ امریکی سائنسدانوں نے
دو طرح کے ایٹم بم بنائے تھے۔ ایک یورینیم سے بنایا گیا جسکا نام ننھا بچہ یا Little
Boy رکھا
گیا جبکہ دوسرے بم کی بنیاد پلوٹونیم تھی جسے موٹا آدمی یا Fat Man پکارا گیا۔ قیامت
خیز بموں کے ایسے سنگدلانہ ناموں ہی سے انھیں بنانے
والوں کی ذہنیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
کامیاب ایٹمی
تجربے کے بعد 26 جولائی 1945 کو امریکی صدر صدر ہیری ٹرومین، برطانیہ کے وزیراعظم
ونسٹن چرچل اور فارموسا (چین) کے صدر چیانگ کائی شیک نے جاپان کے بادشاہ کو فوری
اور غیر مشروط طور ہر ہتھیار ڈالنے کا الٹی میٹم دیا۔ اس مکتوب میں صاٖف صاٖ ف
لکھا گیا کہ ہتھیار نہ ڈالنے کی صورت میں 'فوری اور مکمل تباہی جاپان کا مقدر بن
جائیگی'
جاپان نے اس دھمکی
کو مسترد کردیا چنانچہ 6 اگست 1945 کو صبح نو بجے 'ننھا بچہ' ہیروشیما پر پھینک
دیا گیا۔ یاں یوں کہئے کہ معصوم و نہتے لوگوں کو بھٹی میں ڈالدیا گیا۔ بم کے پھٹتے
ہی اسکی چمک سے ہزاروں لوگوں کی بینائی ختم ہوگئی۔ سارا شہر زمیں بوس ہوگیا اور آگ
کے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے۔ خوش نصیب ٹہرے وہ لوگ جو فوراً ہی ہلاک ہوگئے
ورنہ زخمیوں کو دیکھ کر مائیں بھی اپنی اولاد کیلئے موت کی دعا کرتی تھیں۔ ہزاروں
لوگوں کی آنکھیں ابل کر باہر آگئیں، ہونٹ پگھل گئے اور چہرے پر دانت چمک رہے تھے۔
پیروں کی ہڈیوں کو دیکھ کر سیخ کا گماں ہوتا تھا جن پر بھنے گوشت کے قتلے جمے ہوئے
تھے۔
اس تباہی کے 16
گھنٹے بعد صدر ہیری ٹرومین نے جاپان کے بادشاہ کو ایک اور دھمکی دی۔ اپنے بیان میں
امریکی صدر نے کہا کہ اگر جاپان نے فوری طور پر ہتھیار نہ ڈالے تو آسمان سے تباہی
کی ایسی بارش ہوگی جسے انسانی آنکھ نے کبھی نہیں دیکھا اور اسکے بعد 9 اگست کو
'موٹا آدمی' جاپان کے دوسرے بڑے شہر ناگاساکی پر گرادیا گیا۔ ان دوحملوں میں ڈھائی
لاکھ سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے۔ ہیروشیما اور ناگاساکی ان معنوں میں واقعتاًصفحہِ
ہستی سے مٹ گئے کہ ان دونوں شہروں کی مٹی اور مائیں آج تک بانجھ ہیں۔ یہاں گھاس
بھی نہیں اگتی اور نہ خواتین کی امید بندھتی ہے اور اگر کوئی بدنصیب کونپل پھوٹ
بھی اٹھے تو وہ ذہنی اور جسمانی طور پر معذور ہوتی ہے۔ ہیروشیما اور ناگاساکی میں
جانوروں کی افزائش بھی نہیں ہوتی۔
اتحادیوں کی جس
نشست میں ایٹم بم گرانے کا فیصلہ کیا گیا وہ جرمنی کے شہر پوٹسڈم Potsdam میں منعقد ہوئی تھی اور اس
مناسبت سے اسے پوٹسڈم کانفرنس کہا جاتا ہے۔ اس بیٹھک میں روس کے صدر جوزف اسٹالن
بھی شامل تھے یعنی اس وحشت کا ارتکاب دنیا کے ائمہِ کیپیٹل ازم، سیکیولرازم، نیشنل ازم اور کمیونزم
نے مشترکہ طور پر کیا۔ آج یہی وحشی انسانیت کو دنیا کا سب سے بڑا مذہب قرار دے رہے ہیں۔ اور حیرت ہے ان لوگوں
کی عقل پر جنکے خیال میں سیکیولرازم سے پرامن بقائے باہمی کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔
ستم ظریفی ملاحظہ
فرمایئے کہ جس ملک نے نہتے لوگوں کے خلاف ایٹم بم استعمال کیااور وہ ساری اقوام جو
انسانیت کے خلاف اس بھیانک جرم میں وحشیوں
کی سہولت کار تھیں وہی اب دنیا میں جوہری ہتھیار کے عدم پھیلاو کے عملبردار ہیں
جنکی لگائی ظالمانہ پابندیوں سے ایران اور شمالی کوریا کے کروڑوں لوگ دوا اور غذا
سے محروم ہیں۔
No comments:
Post a Comment