Friday, August 21, 2020

فلسطین! انتخابی سیاست پر قربان

فلسطین! انتخابی سیاست پر قربان  

متحدہ عرب امارات نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ  کرلیا۔ دلچسپ بات کہ اعلان ابو ظہبی کے بجائے واشنگٹن سے ہوا جسے صدر ٹرمپ نے 'معاہدہ ابراہیم' قراردیاہے۔ یہ خبر کسی بھی اعتبار سے حیرت انگیز یا چشم کشا نہیں ہے اور سفارتی سرگرمیوں سے صاف لگ رہا ہے کہ  بحرین اور عمّان بھی ایسا ہی فیصلہ کرچکے ہیں۔ 16 اگست کو بحرینی وزارت خارجہ نے اپنے ایک ٹویٹ میں اطلاع دی کہ وزیراعظم شیخ خلیفہ بن سلمان الخلیفہ غیر ملکی دورے پر روانہ ہوگئے ہیں۔ اعلامئے میں وزیرباتدبیر کی منزل کے بارے میں کچھ نہٰں بتایاگیا لیکن خیال ہے کہ موصوف 'مشورے' کیلئے اسرائیل یا مصر گئے ہیں اور امریکی فوج کے پانچویں بحری بیڑے کا میزبان جلد ہی اسرائیل کو تسلیم کرلے گا۔ اسی کے ساتھ عمانی وزیر مملکت برائے امورخارجہ جناب یوسف بن علوی نے فون کے ذریعے اپنے اسرائیلی ہم منصب جنرل گیبی اشکنازی سے 'مشرق وسطیٰ امن منصوبے' کے اہم نکات اور علاقے میں ہونے والی سفارتی پیشرفت پر تفصیلی گفتگو فرمائی۔

اسرائیل و امریکہ کی ایک دہائی سے جاری  مربوط و  منظم عسکری و سفارتی مہم کے نتیجے میں فلسطینی تنہائی کا شکار ہوچکے ہیں اور ان مظلوموں کی حالتِ زار سے مکمل آگاہی  کے باوجود اسلامی ممالک سمیت دنیا انکے ساتھ کھڑی ہونے کو تیار نہیں۔ اہل غزہ و رام اللہ سے کہا جارہا ہے اسرائیل جو دے رہا ہے اسے لے کر ہنسی خوشی رہنے پر تیار ہوجاو ورنہ تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔مسلم دنیا میں فلسطینیوں کی حمائت میں کمی کا فائدہ اٹھاکر اسرائیل کو تسلیم کرانے کی مہم کا آغاز ہوچکا ہے۔اسرائیل چاہتا ہے کہ اسلامی دنیا اسے قابض قوت کے بجائے ایک جائزومستند ریاست کا مقام عطا کردے۔

فلسطینی ملت سکڑ کر غرب اردن کے کچھ دیہاتوں اور غزہ کی پٹی تک محدود ہوچکی ہے۔ غزہ کو کھلی چھت کا جیل خانہ کہنا بھی مناسب نہیں کہ دور جدید میں قیدیوں کو بجلی،پانی، صحت و صفائی اور خوراک کی جو سہولت حاصل ہے 18 لاکھ اہل غزہ اس سے بھی محروم ہیں۔فلسطینیوں کو صرف اتنی سی سفارتی مدد حاصل ہے کہ اکثر مسلمان ممالک اسرائیل کو غاصب قرار دیتے ہوئے کم از کم زبان کی حد تک آزاد فلسطین کے حامی ہیں۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور معمول کے سفارتی تعلقات قائم ہوجانے کے بعد مظلوم فلسطینی تنکے کے اس سہارے سے بھی محروم ہوجائینگے۔

اس سال 28 جنوری کو صدر ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ امن منصوبے کا اعلان کیا تھا جس میں اسرائیل کے ساتھ فلسطینی ریاست کی ضمانت دی گئی تھی۔ معاہدے کی تیاری میں تنازعے کے دوسرے فریق یعنی فلسطین کو شریک مشورہ تو دور کی بات اعلان سے پہلے اعتماد میں بھی نہیں لیا گیا۔ صدر ٹرمپ نےاسےغیر معمولی اور اہم پیش رفت قرار دیتے ہوئے  کہا کہ انکے مجوزہ منصوبے میں فلسطین کے زیر انتظام علاقے میں بہت اضافہ کیا گیا ہے۔اس موقع پر اسرائیل کے قائد حزب اختلاف  بن یامین گینٹز کو  صدرٹرمپ نے خصوصی طور پر مدعو کیا تھا۔انتخابات کے بعد اب مسٹر گینٹز مخلوط حکومت کے وزیردفاع ہیں۔ مجوزہ منصوبے کے اہم نکات:

·        فلسطینیوں کے   کلیدی مطالبے  ’’دو ریاستی فارمولے' کو تسلیم کیا گیا ہے

·        دریائے اردن کے مغربی کنارے  اور دوسری فلسطینی آبادیوں  پر اسرائیلی اقتدار کوقانونی حیثیت حاصل ہوگی  ۔

·        گولان  اسرائیل کا اٹوٹ انگ ہوگا

·        بیت المقدس  بدستور اسرائیل کا دارالحکومت رہے گا

·        بیت المقدس کے مشرقی مضافاتی علاقے میں فلسطین کا دارالحکومت قائم کیا جائیگا ۔ مسجد اقصیٰ کو دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے کھول دیا جائیگا ۔

·        مجوزہ نقشے میں ننھا سا فلسطین  ساری دنیا سے کٹا اور  اسرائیل سے گھرا ہوا ہے ۔

·        غزہ بحر روم کے ساحل پر واقع ہے لیکن منصوبے کے تحت آبی آمدو رفت اسکے شمال میں اشدود بندرگاہ سے ہوگی جو اسرائیل کا حصہ ہے  یعنی  اہل غزہ کی پانی تک رسائی اتنی ہی ہوگی کہ وہ اپنے گھر کی کھڑکیوں سے سمندر کا نظارہ کرسکیں

·        دنیا سے فلسطین کا رابطہ رفاح سے ہوگا جو مصر کے کنٹرول میں ہے۔ رفاح گیٹ ایک عرصے سے مقفل ہے جسکی کنجیاں جنرل السیسی کے پاس ہیں

·        فلسطین  میں 15  اسرا ئیلی بستیاں بھی ہونگی  جو فلسطینیوں کی زمین پر آباد کی جائینگی۔ ان آبادیوں کی حفاظت کیلئے اسرائیل فوج تعینات ہوگی۔ اگر فلسطینی ٹرمپ پلان کو تسلیم کرلیں تو اسرائیل اگلے 4 برس تک کوئی نئی بستی تعمیر نہیں کریگا۔

اس منصوبے کا آخری نکتہ معنی خیز ہے یعنی فلسطینیوں کی مزید ہتھیانے سے 'پرہیز' کی مدت صرف چار سال ہے۔ اسکے بعد کیا ہوگا؟ یہ سب کو معلوم ہے۔ 181 صفحات پر مشتمل یہ دستاویزجسے صدر ٹرمپ نے ڈیل آف دی سنچری قراردیا تھا، امریکہ کے داماد اول جیررڈ کشنر نے تحریر فرمائی ہے۔ موصوف کو امارات اور سعودی عرب کے ولی عہد حضرات کا جگری دوست سمجھا جاتاہے۔ یہ دونوں عرب شہزادے دنیا میں MBZاور MBSکے نام سے پہنچانے جاتے ہیں۔ دستاویز کالب لباب یہ ہے کہ اگر فلسطینی جدوجہد آزادی کا سودا سر سے نکالدیں تو انکے لئے دودھ و شہر کی نہریں بہہ سکتی ہیں۔نقشے کے مطابق فلسطینیوں کی یہ جنت ارضی چندسو مربع کلومیٹر پر مشتمل ہوگی اور ساکنانِ فردوسِ زمیں کی ہلکی سی گستاخی پر اسے جہنم زار میں تبدیل کردیا جائیگا۔

فلسطینیوں کے شدید احتجاج کی بناپر اس منصوبے کو پزیرائی نصیب نہ ہوئی اور خود سعودی عرب نے بھی اس پر کسی گرمجوشی کا اظہار نہ کیا چنانچہ چند ماہ پہلے غرب اردن  کے مقبوضہ عرب علاقوں کے اسرائیل سے الحاق کا اعلان ہوا۔ یعنی گاجر غیر موثر ہونے پر لاٹھی لہرا دی گئی۔ دروغ بر گردن راوی  لاٹھی و گاجر  کی رونمائی بارش کے پہلے قطرے کا نزول خوشگوار بنانے کیلئے تھی۔

متحدہ عرب امارات کے MBZ اسرائیل سے تعلق میں  پہل کیلئے بھی ایک  عرصے سے  پرتول رہے تھے۔ اسکا آغاز کرونا وائرس سے متاثرین فلسطینیوں کیلئے امدادی سامان سےلدےاتحاد ائرویز کی تل ابیب کیلئے براہ راست پرواز سے ہوا۔ گویا امارات اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کا آغاز ہوگیا۔ تاہم فلسطینیوں نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے امدادی سامان قبول کرنے سے انکار کردیا۔ مقتدرہ فلسطین کے ترجمان نے  کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے فلسطینیوں کا کندھا استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ 

اسی کے ساتھ اسرائیل نے عرب علاقوں کے اسرائیل سے الحاق کی کوششیں تیز کردیں اور تل ابیب سے اعلان کیا گیا کہ اس سال کے اختتام سے پہلے غرب اردن کے بڑے علاقے کو اسرائیل کا حصہ بنالیا جائیگا۔اسکی وضاحت کرتے ہوئے اسرائیلی وزیرِ اعظم  نے کہا کہ اسرائیل کی حدود کو وادی اردن اور شمالی بحیرۂ مردار تک بڑھا دیا جائیگا جسے انھوں نے'نئی' اسرائیلی مشرقی سرحد' کا نام دیا۔ ہتھیائے جانے والے علاقے کےصیہونی تشخص کو  یقینی بنانے کیلئے یہ غیر مبہم اعلان بھی کردیا گیا کہ اسرائیل کا حصہ بننے والے علاقوں میں آباد فلسطینیوں کو اسرائیل کی شہریت نہیں دی جائیگی۔

الحاق کے اس فیصلے کی صدر ٹرمپ نے کھل کر حمائت جبکہ انکے حریف جو بائیڈن، یورپی یونین اور اقوام متحدہ نے فلسطینیوں کی اشک شوئی کیلئے اس اعلان پر 'شدید تشویش' کااظہار کی۔الحاق کے اس فیصلے کے خلاف فلسطینیوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا اور محمود عباس نے صاف صاف کہدیا کہ اگر فلسطینیی زمینوں کو ہتھیایا گیا وہ اسرائیل سے ہونے والے تمام امن معاہدوں کو منسوخ کردینگے یا یوں کہئے کہ انھوں نے مسلح جدوجہد دوبارہ شروع کرنے کا عندیہ دے دیا۔ اسی دوران  اسرائیل میں کرونا وائرس کی صورتحال خراب ہوگئی اور وازیراعظم کے خلاف بے ایمانی و بدعنوانی کے الزامات پر اعلیٰ عدالت میں انکے خلاف سماعت کا آغاز ہوگیا۔ پہلی سماعت میں نیتن یاہو کی اصالتاً حاضری سے استثنا کی درخواست بھی مسترد کردی گئی۔ ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے فرد جرم کے جواب کی تیاری کیلئے'ملزم' کو دسمبر تک کی مہلت کیساتھ یہ بات بھی باور کرادی کہ اگلے سال کے آغاز سے سے مقدمے کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہوگی۔

دوسری طرف امریکہ میں انتخابی مہم کا آغاز ہوا۔کرونا وائرس کے حوالے سے مایوس کن کارکردگی کی بناپر صدر ٹرمپ دباو میں آگئے چانچہ انھوں نے  بین الاقوامی امور پر   فیصلہ کن پیشرفت کیلئے سرتوڑ کوششیں کردی۔ اس ضمن میں چاربڑے تنازعات کھنگھالے گئے جن میں ایران امریکہ کشیدگی، شمالی کوریا کا جوہری پروگرام، مشرق وسطٰی امن منصوبہ اور افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا شامل ہیں۔

ایران کا معاملہ امریکہ اور اس سے بڑھ کر اسرائیل اور امریکہ کے خلیجی اتحادیوں کیلئے خاصہ نازک ہے اور سرد مہری کی برف پگھلانے  کیلئے تہران کو کسی بھی قسم کی رعائت سے آبگینوں کو ٹھیس لگ جانے کا خدشہ تھا۔ دوسری طرف شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ انھ نے جوہری عزائم پر کسی بھی قسم  کی بات چیت سے پہلے اپنے ملک کے خلاف پابندیاں ختم کرنے کی شرط عائد کردی ہےاور وہ پابندیاں کے خاتمے سے پہلے بات چیت تو دور کی بات صدر ٹرمپ کا فون اٹھانے پر بھی تیار نہیں۔چونکہ وقت کم اور مقابلہ سخت ہے اسلئے ستاروں پر کمند ڈا لنے کے بجائے جھکی ڈالیوں سے پھل توڑنے کی حکمت اختیار کی کی گئی۔

افغانستان میں 'مسٹر و ملا مفاہمت' کیلئے  کوششیں تیز کردی گئیں  اورٹرمپ انتظامیہ  نے امداد بندکردینے کی دھمکی دیکر  افغان حکومت کو طالبان قیدیوں کی رہائی پرآمادہ کرلیا ۔ صدرٹرمپ کی خواہش ہے کہ انتخابی مہم کے آخری دنوں میں افغانستان سے واپس آنے والے فوجیوں کا استقبال کرکے امریکی عوام کے سامنے خود کو ایک  ایسا مدبر ر ہنما ثابت کریں جو sleepy Joeکے مقابلے میں انتہائی سرگرم ہے اور کئی دہائیوں پر محیط  گنجلک و پیچیدہ تنازعات کا منصفانہ حل تلاش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

امارات  اسرائیل مفاہمت  اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جیررڈ کشنر تحقیق و ترقی اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں اسرائیل کی عظیم الشان کامیابی کے قصے سناکر عرب شہزادوں کو مسحور کرچکے ہیں۔ داماد اول کا کہنا ہے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ کی سلیکون ویلی یا بنگلور ہے۔اسرائیل سے دوستی کے نتیجے میں انکے تپتے صحرا گل و گلزار میں تبدیل ہوجائینگے اور غلہ درآمد کرنے والے خلیجی ممالک ایشیا اور افریقہ کو خوراک فراہم کرینگے۔ فرسودہ نظام و طریقہ تعلیم کی جگہ اسرائیل کے جدید ترین نصاب سے عرب دنیا میں علم و دانش کا وہ عظیم الشان انقلاب برپا ہوگا جو پسماندہ عربوں کو ایک بار پھر دنیا کا امام بنا دیگا۔ ان سب سے بڑھ کر خلیجی رہنماوں پر ایران کا خوف طاری ہے۔اسرائیل کی عسکری صلاحیتیوں اور موساد کی سراغرسانی استعداد سے عرب امرااور سلاطین  بے حد متاثر ہیں اورانھیں یقین ہے کہ تعلقات کے بعد اسرائیل دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے ایران کے خلاف عربوں کاموثر دفاع کریگا۔

اسی کے ساتھ انا کی تسکین اور کامیاب سفارتکاری کا تاثر دینے کیلئے پہلے تو اسرائیل کو الحاق کا فیصلہ موخر کرنے پر راضی کیا گیا تودوسری طرف MBZسے کہا گیا کہ وہ سفارتی تعلقات کیلئے الحاق کا فیصلہ منسوخ کرنے کی شرط عائد کردیں۔ صدر ٹرمپ کی ثالثی میں امارات کی شرط اسرائیل تک پہنچادی گئیں اور نیتن یاہو نے اس پر جزوی رضامندی ظاہر کردی۔ چانچہ فلسطینوں کیلئے 'زبردست رعائت' کے عوض  امارات نے  اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کردیا۔ یہ اور بات کہ فیصلے کے خیر مقدم کیلئے تل ابیب بلدیہ کی عمارت پر روشنیوں سے امارات کا قومی پرچم لہراتے ہوئے نیتن یاہو نے صاف صاف کہدیا کہ فلسطینی علاقوں کے الحاق کا فیصلہ منسوخ نہیں بلکہ ملتوی کیا جارہا ہے۔ جب ایک صحافی نے ان سے پوچھا کہ کیا منصوبہ منجمد کیا جارہا ہے تو انھوں نے کہا کہ ہاں! لیکن یہ انجماد وقتی ہے۔

اسکی مزید وضاحت 13 اگست کو واشنگٹن میں صدر ٹرمپ کی اخباری کانفرنس کے دوران ہوئی جب صدر نےامارات کے اس فیصلے کو مشرق وسطیٰ امن کیلئے شانداز پیشرفت قراردیا۔ امریکی صدر نے کہا کہ انکے پیشرو قائدانہ صلاحیتوں سے محروم تھے لیکن صدر ٹرمپ نے اس تنازعے کے تمام فریقین کو ایک ایسے معاہدے پر متفق کردیا ہے جسکا سب سےبڑا فائدہ فلسطینیوں کو ہوگا۔ امارات کے جرات مندانہ قدم سے فلسطینی علاقوں کے اسرائیل سے الحاق کا معاملہ داخل دفتر ہوگیا ہے اور انھیں یقین ہے کہ باقی عرب اور مسلمان ممالک MBZ کی پیروی کرتے ہوئے اسرائیل سے اپنے تعلقات معمول پر لے آئینگے۔ انھوں نے کہا کہ فلسطینی زبان سے نہیں کہتے لیکن وہ بھی دل سے یہی چاہتے ہیں۔ جب ان سے ایک صحافی نے پوچھا کہ کیا اسرائیل الحاق کا فیصلہ منسوخ کرنے پر رضامند ہوگیا ہے تو وہاں موجود اسرائیل میں امریکہ کے سفیر ڈیوڈ فریڈ مین نے بہت صراحت سے کہا 'الحاق کا فیصلہ منسوخ نہیں بلکہ وقتی طور پر ملتوی کیا گیا ہے'

سوال یہ ہے کہ  اسرائیل سے تعلقات کیلئے امارات کو الحاق کاشوشہ اٹھانے کی ضرورت کیا تھی۔ قطر کے سوا تمام کے تمام خلیجی ممالک بلا مشروط اسرائیل کو تسلیم کرنے کے پر جوش حامی ہیں۔ اماراتی حکمرانوں کو ملک میں کسی رد عمل کا خوف نہیں نہ ہی علاقے میں کسی مشکل کا سامنا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موذیوں کا منہہ بند کرنے کیلئے الحاق کا مسئلہ اٹھایا گیا ہے یعنی اسرائیل سے مہر ومحبت کا اظہار فلسطینیوں کی خاطر ہے۔اب الحاق کے فیصلے کو مزید موخر کرنے کاجھانسہ دیکر دوسرے خلیجی ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلینگے۔ فلسطینیوں سے ہمدردی کی آڑ میں پاکستان سمیت غیر عرب مسلم ممالک کو اسرائیل سے سفارتی تعلقات کیلئے آمادہ کیا جائیگا۔ جسکے بعد فلسطینیوں کو پیشکش کی جائیگی کہ اگر وہ ہتھیار رکھنے پر رضامند ہوجائیں تو الحاق کا فیصلہ یکسر منسوخ کیا جاسکتا ہے ہے یعنی چند سو مربع کلومیٹر اراضی کے عوض سارے فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کو قانونی شکل دے دی جائیگی۔اس پورے معاملے پر انتہائی دردناک تبصرہ حماس کے ترجمان کا ہے جنکا کہنا تھا کہ '1977 میں انوارالسادات نے ہماری پشت میں جو چھرا گھونپا تھا اب اسکی نوک ہمارے دل و جگر تک پہنچ چکی ہے'

مشرق وسطٰی کے سفارتی حلقوں کا کہناہے کہ امارات کے بعد عمان اور بحرین اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں جبکہ سوڈان کی فوجی جنتا وزیراعظم ڈاکٹر عبداللہ حمدوک پر اسرائیل سے سفارتی تعلقات کیلئے دباو ڈال رہی ہے۔ خیال یہی ہے کہ ڈاکٹر صاحب بہت دیر تک مزاحمت نہیں کرپائینگے۔ سعودی عرب اور کوئت چاہتے ہیں کہ اب کچھ 'غیرعرب' مسلم ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کرلیں۔ MBSکی خواہش ہے کہ اس 'کارِخیر' کیلئے پاکستان اور ملائیشیاآگے آئیں۔ ملائیشیا اس پر فی الحال آمادہ نظر نہیں آرہا۔ پاکستان کو رضامند کرنے کیلئے فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ کو ریاض طلب کیا گیا ہے۔سعودیوں کو معلوم ہے کہ عوامی غیض و غضب کے پیش نظر سول انتظامیہ کیلئے یہ فیصلہ ممکں نہیں اور اس حوصلے کی توقع جرنیلوں ہی سے کی جاسکتی ہے۔

کہا تو جارہا ہے کہ گزشتہ دنوں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کشمیر کے حوالے سے  سعودی  روئے پر جس مایوسی کا اظہارکیا تھا اس پر ریاض سخت برہم ہے اور باہمی تعلقات میں آجانے  والی سلوٹوں  کو ہموار کرنے کیلئے جنرل صاحب سعودی عرب تشریف لے گئے ہیں لیکن پیغامِ زبانی کچھ اور نظرآرہا ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 21 اگست 2020

ہفت روزہ دعوت  دہلی 21 اگست 2020

ہفت روزہ رہبر سرینگر 23 اگست

2020

 

No comments:

Post a Comment