Sunday, August 2, 2020

متحدہ عرب امارات کا جوہری پاورپلانٹ


متحدہ عرب امارات کا جوہری پاورپلانٹ
متحدہ عرب امارات کے پہلے جوہری پاور پلانٹ نے کام شروع کردیا۔ یہ منصوبہ اپنے آغاز سے ہی تنازعے کا شکار ہے۔امریکہ کا دباو تھا کہ تعمیر کا ٹھیکہ کسی امریکی کمپنی کو دیا جائے لیکن پرکشش تکنیکی اور تجارتی پیشکش کی بنیاد پر قرعہ فال کورین الیکٹرک پاور کمپنی کے نام نکلا۔ چچا سام نے عالمی ایٹمی ایجنسی کی جانب سے اجازت میں مبینہ طور پر روڑے اٹکائے تاہم مارچ 2011میں منصوبے کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا۔ البرکہ جوہری پلانٹ کے لئے صوبے الظفرہ کا ساحلی علاقہ منتخب کیا گیا۔الظفرہ کو پہلے صوبہ غربیہ کہاجاتاتھا۔ سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں کوریا کے صدر بھی تشریف لائے۔
عجیب اتفاق کہ ابھی تعمیر کا آغاز ہی ہوا تھا کہ سونامی کی وجہ سے اٹھنے والی موجیں جاپان کے فیکوشیماجوہری پلانٹ پر چڑھ دوڑیں اورجوہری مواد فضا میں پھیل جانے سےہنگامی صورتحال پیدا ہوگئی۔ فیکوشیما حادثے کی وجہ دنیا بھر کے نیوکلیر پلانٹ کے حفاظتی اقدامات پر نظر ثانی کی گئی چنانچہ برکہ پاور پلانٹ کے ڈیزائن کو بھی نئے سرے سے کھنگھالاگیا اور اطمینان کرلینے کے بعد جولائی 2012 میں تعمیر کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔
دسمبر 2017 میں یمن کے حوثی باغیوں نے برکہ پاور پلانٹ کو نشانہ بنانے کادعوی کیا جسکی متحدہ عرب امارات نے تردید کی اور عالمی تونائی ایجنسی نے بھی البرکہ کے ارد گرد ناخوشگوار واقعے کو بے بنیاد سمجھا۔ لیکن اسے بنیاد بناکر قطر نے عالمی جوہری ایجنسی کو ایک چٹھی لکھدی جس میں البرکہ پلانٹ کو خلیجی ممالک کیلے خطرہ قراردیا گیا۔ ان اندیشوں اور اعتراضات کے باوجود پلانٹ پر کام جار ی رہا۔
یکم اگست کے اس کے چار میں سے ایک ری ایکٹر پر افزودگی کے عمل کا آغازہوگیا۔ منصوبے کی مجموعی لاگت 24 ارب چالیس کروڑ ڈالر ہے۔ اس پہلے ری ایکٹر سے بجلی کی پیداوار کا تخمینہ 1345میگا واٹ اور اگلے  برس جولائی تک چاروں ری ایکٹر کے چالو ہوجانے پر یہاں سے 5000 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی جو امارات کی ضرورت کے ایک چوتھائی کے قریب ہے۔
البرکہ عرب دنیا کا پہلا جوہری پاور پلانٹ ہے۔ کچھ عرصہ قبل امارات نے مریخ پر اپنا تحقیقاتی مشن بھی بھیجا ہے۔
اماراتی حکومت اس کامیابی پر  بہت خوش ہے لیکن اسکے 'نئے دوست' اسرائیل میں چہ می گوئیاں شروع ہوگئی ہیں۔ غیر ضروری اندیشہ ہائے دوردرازمیں مبتلا اسرائیلی میڈیا اس پیشرفت کو پاکستان کے اسلامی بم کے بعد عرب بم کا نقطہ آغاز قرار دے رہاہے۔ کچھ دانشوروں نے بقراطی بگھاری ہے کہ جب توانائی کیلئے امارات کو سستا تیل میسر ہے تو اسے ایٹمی بجلی کی ضرورت ہی کیاہے۔لوگوں کو  یہ خوف بھی لاحق ہے کہ دہشت گردی کا نشانہ بننے کی صورت میں کہیں یہ پلانٹ سارے علاقے کومشکل میں نہ ڈالدے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ امارات کو جوہری توانائی کے بجائے شمسی توانائی پر توجہ دینی چاہئے جو شفاف اور محفوظ ہے۔
ماہرین دراصل کہنا یہ چاہتے ہیں کہ جوہری توانائی مغرب کی مہذب اقوام کیلئے ہے۔اجڈو گنوار عرب و اسلامی دنیا اس حساس ٹیکنالوجی کے قابل نہیں۔ احساس کمتری کے مارے ہمارے دانشور بھی کچھ اسی انداز میں سوچتے ہیں حالانکہ اب تک صرف ایک ملک نے شہری آبادی کو جوہری بم کا نشانہ بنایا ہے اور ستم ظریفی کہ اسی ملک کو جوہری پھیلاوپر سب سے زیادہ تشویش ہے۔ خرد کا نام جنوں رکھدیا جنوں کا خرد

2 comments:

  1. Sir g..
    Aor wo country muddai bhi khud, wakil bhi khud aor judge bhi khud hee ha..

    ReplyDelete
  2. Sir g..
    Aor wo country muddai bhi khud, wakil bhi khud aor judge bhi khud hee ha..

    ReplyDelete