Thursday, August 13, 2020

امریکہ کا انتخابی کالج ۔۔ نصاب اور حساب

امریکہ کا انتخابی کالج ۔۔ نصاب اور حساب

امریکہ میں 3 نومبر کو انتخابات ہورہے ہیں۔ ان انتخابات سے ساری دنیا کو دلچسپی ہے کہ گولان سے بولان اور شکاگو سے کالاشاہ کاکو تک سب ہی چچا سام کی زلفوں کے اسیرہیں۔

امریکہ میں صدارتی انتخابات کا نظام دوسرے ملکوں سے بہت مختلف ہے جسکی وجہ یہاں کا منفرد وفاقی نظام ہے۔ امریکہ 50 آزاد و خود مختار ریاستوں پر مشتمل ایک وفاق کا نام ہے۔ وفاق کی  ہر ریاست کا اپنا دستور، جھنڈا اورمسلح فوج ہے۔ کرنسی اور خارجہ امور کے سوا بین الاقوامی تجارت سمیت تمام معاملات میں ریاستیں پوری طرح بااختیار ہیں۔امریکی صدر وفاق کی علامت اور اسکی مسلح افواج کا سپریم کمانڈر ہے۔ صدر کے انتخاب میں ہر ریاست انفرادی اکائی کی حیثیت سے ووٹ ڈالتی ہے اور اس مقصد کیلئے ایک کلیہ انتخاب یا Electoral-Collegeتشکیل دیا گیا ہے۔ سیاسیات کے طلبہ کیلئےامریکہ کے کلیہ انتخاب کا ایک مختصر تعارف ۔

کلیہ انتخاب میں ہر ریاست کو اسکی آبادی کے مطابق نمائندگی دی گئی ہے اور یہ اس ریاست کیلئے ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) اور سینیٹ کیلئےمختص نشتوں کے برابر ہے۔ امریکہ میں ایوان نمائندگان کی نشتیں آبادی کے مطابق ہیں جبکہ سینیٹ میں تمام ریاستوں کی نمائندگی یکساں ہے اور ہر ریاست سے سے دو دو سینیٹرز منتخب کئے جاتے ہیں۔ امریکہ کے ایوان نمائندگان کی نشستوں کی مجموعی تعداد 435 ہے جبکہ 50 ریاستوں سے 100 سینیٹرز منتخب ہوتے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت یعنی ڈسٹرکٹ آف کولمبیا المعروف واشنگٹن ڈی سی کیلئے انتخابی کالج میں تین ووٹ ہیں۔گویا کلیہ انتخاب 538 ارکان پر مشتمل ہے اور صدر منتخب ہونے کیلئے انتخابی کالج  کے  کم ازکم 270 ووٹ حاصل کرنا ضروری ہے

الیکٹرل کالج کی ہیت کو اسطرح سمجھئے کہ ٹیکسس (Texas) سے ایوان نمائیندگان کے 36 ارکان منتخب ہوتے  چنانچہ 2 سییٹرز کو ملاکر انتخابی کالج میں ٹیکسس کے 38 ووٹ ہیں۔انتخابی کالج میں سب زیادہ ووٹ نائب صدارت کیلئے ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کملا دیوی کی ریاست کیلی فورنیا کے ہیں یعنی 55 جبکہ اسی پارٹی کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن کی ریاست ڈیلوئیر کے صرف 3 ووٹ ہیں۔ جنوبی ڈکوٹا، شمالی ڈکوٹا، مونٹانا، وایومنگ، الاسکا، ، ورمونٹ کے بھی کلیہ انتخاب میں تین تین ووٹ ہیں۔ انتخابی ووٹؤن کے اعتبار سے کیلی فورنیا پہلے، ٹیکسس دوسرے نمبر پر ہے جبکہ 29 ووٹوں  کے ساتھ نیویار ک اور فلورڈا تیسرے نمبر پر ہیں۔

الیکٹرل کالج میں 'سارے ووٹ جینتے والے کیلئے' کا اصول اختیار کیا جاتا ہے اور ریاست میں جس امیدوار کو بھی برتری حاصل ہوئی اس ریاست سے انتخابئ کالج کیلئے مختص سارے ووٹ جیتنے والے امیدوار کے کھاتے میں لکھ دئے جاتے ہیں۔ یعنی اگر کیلی فورنیا سے کسی امیدوار نے ایک ووٹ کی برتری بھی حاصل کرلی تو تمام کے تمام 55 الیکٹرل ووٹ اسے مل جائینگے۔ صرف ریاست مین Maine اور نیبراسکا میں ایک تہائی الیکٹرل ووٹ ایوان نمائندگان کی حلقہ بندیوں کے مطابق الاٹ کئے جاتے ہیں ورنہ باقی سارے امریکہ میں ریاست کے مجموعی ووٹوں کی بنیاد پر فیصلہ ہوتا ہے۔

دلچسپ بات کہ اس سال  3 نومبر کو ہونے والی ووٹنگ کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہیں بلکہ صدر اور نائب صدر کے انتخاب کیلئے 14 دسمبر کو تمام ریاستی دارالحکومتوں میں پولنگ ہوگی جس میں الیکٹرل کالج کے ارکان خفیہ بیلٹ کے ذریعے صدر اور نائب صدر کیلئے ووٹ ڈالینگے۔ ووٹنگ کے بعد نتائج مرتب کئے جائینگے اور اسے ایک بکس میں بند کرکے وفاقی دارالحکومت بھیج دیا جائیگا۔6 جنوری 2021 کو سینیٹ کے چیئرمین (نائب صدر) کی نگرانی میں تما م ریاستوں سے آنے والے بکسوں کو کھول کر صدارتی انتخاب کا سرکاری نتیجہ مرتب کیا جائیگا۔

یہاں یہ ذکر بہت ضروری ہے کہ قانونی طور سے الیکٹرل کالج کے ارکان کسی مخصوص امیدوار کو ووٹ دینے کے پابند نہیں اور انتخاب بھی خفیہ بیلٹ پیپر کے ذریعے ہوتا ہے۔ اسکے باوجود گزشتہ ڈھائی سو سال کے دوران ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا کہ جب الیکٹرل کالج میں عوامی امنگوں کے برخلاف کوئی ووٹ ڈالا گیا ہو۔

2016 کے انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہلیری کلنٹن کو مجموعی یا پاپولر ووٹوں کے اعتبارسے ڈانلڈ ٹرمپ پر 28 لاکھ ووٹوں سے زیادہ کی برتری حاصل تھی لیکن جب تمام ریاستوں کے انتخابی ووٹ جمع کئے گئے تو صدر ٹرمپ کے الیکٹرل ووٹوں کی تعداد کلنٹن سے 77 زیادہ تھی۔اس سلسلے چند دلچسپ مثالیں پیش خدمت ہیں جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امریکہ میں صدارتی انتخابات کی مہم سیاست سے زیادہ ریاضی کی مشق ہے

امریکی دارالحکومت میں ہلیری کلنٹن نے 90 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے یہاں مختص 3 الیکٹرل ووٹ اپنے نام کرلئے، جبکہ مشیگن میں کانٹے دار مقابلہ ہوا جہاں صدر ٹرمپ کو صرف  0.23فیصد ووٹوں کی برتری کے عوض 16 انتخابی ووٹ مل گئے۔کچھ ایسا معاملہ فلوریڈا ور پنسلوانیہ میں ہوا جہاں باالترتیب 1.2اور 0.7فیصد برتری کے عوض 49 الیکٹرل ووٹ صدر ٹرمپ کے کھاتے میں لکھ دئے گئے۔

 

No comments:

Post a Comment