Tuesday, August 25, 2020

امریکہ کے صدارتی انتخابات۔ امیدواروں کا تعارف

امریکہ کے صدارتی انتخابات۔ امیدواروں  کا تعارف  

گزشتہ نشست  میں ہم نے صدر ٹرمپ کا تعارف پیش کیا تھا۔ آج انکے حریف  جوبائیڈن کا ذکر

77 سالہ جو بائیڈن 2009 سے جنوری 2017 تک امریکہ کے نائب صدر رہ چکے ہیں۔ انکا تعلق امریکی ریاست ڈیلاویئر Delawareسے ہے۔جناب بائیڈن کی والدہ آئرش نژاد اور ددھیالی شجرہ فرانس اور انگلستان سے ملتا ہے۔انکے والد تیل کی صنعت سے وابستہ ایک خوشحال تاجر تھے لیکن جو کی ولادت کے وقت انکا کاروبار گھاٹے کا شکار ہوگیا اور ننھے جو کا بچپن سختیوں میں گزرا۔انھوں نے خاصی کم عمری سے معاشی جدوجہد میں اپنے والد کا ہاتھ بٹایا ۔جو بائیڈن کالج کے دنوں میں فٹبال کے کھلاڑی تھے۔

جناب باییڈن کی نظریں زمانہ طالب علمی سے ہی وہائٹ ہاوس پر ہیں۔ انکی سابق اہلیہ آنجہانی نیلا ہنٹر نے اپنی ایک سہیلی کو بتایا کہ پہلی ملاقات میں جو بائیڈن نے ان کو اپنے ارادے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ 30 سال کی عمر میں  سینیٹر اور اسکے بعد امریکہ کے صدر بننا چاہتے ہیں۔ 1969 میں 27 برس کے بائیڈن لبرل منشور پرریپبلکن پارٹی کو شکست دیکر بلدیاتی کونسلر منتخب ہوگئے۔ یہ حلقہ ریپبلکن پارٹی کا گڑھ تھا اور قدامت پسندوں کو شکست سے دوچار کرکے جو بائیڈن نے ریاستی سیاست میں اپنامقام بنالیا۔ 

1972کے عام انتخابات میں جو بائیڈن نے سینیٹ کا انتخاب لڑنے کا اعلان کردیا۔ انکا مقابلہ ریپبلکن پارٹی کے مرکزی رہنما کیلب بوگس Caleb Boggsسے تھا جو 1960 سے اس نشست پر کامیاب ہوتے چلے آرہے تھے۔ تجربےکا فرق یوں سمجھئے کہ جب 1942 میں جو بائیڈن کی ولادت ہوئی اسی سال کیلب بوگس بلدیاتی کونسلر منتخب ہوئے تھے۔ یعنی جوبائیڈن جس شخص کے مقابلے میں خم ٹھونک کر میدان میں آئے تھے اسکا سیاسی تجربہ موصوف کی مجموعی عمر سے زیادہ تھا۔ سب سے بڑی بات کہ جو بائیڈن کی جیب  بھی خالی تھی ۔ جو بائیڈن کی ہمشیرہ ویلیری باییڈن انکی انتخابی مہم کی ناظمہ تھیں۔ انھوں نے ٹیلی ویژن اور اخبارات میں اشتہارات کے بجائے گھر گھر دستک اور گلی محلوں میں چھوٹے چھوٹے جلسوں کی منفرد حکمت عملی اختیار کی۔یہ وہ وقت تھا جب جنگ ویتنام کے حوالے سے عوام میں بیچینی تھی۔ جناب بائیڈن نے ویتنام سے امریکی فوجیوں کی واپسی کو مہم کی بنیاد بنایا اور شدید مقابلے کے بعد 'سرپھرے لڑکے' کے نام سے مشہور جو بائیڈن مسٹر بوگس کو ہرانے میں کامیاب ہوگئے۔

بلاشبہ یہ انکی عظیم الشان کامیابی تھی لیکن صرف چندہفتوں بعد انکی شدید ترین آزمائش کا آغاز ہوا اور ٹریفک کے خوفناک حادثے میں انکی اہلیہ اور شیرخوار بچی ہلاک اور دو نوں بیٹے شدید زخمی ہوگئے۔ انکی حلف برداری کی تقریب اس ہسپتال کی عبادت گاہ میں منعقد ہوئی جہاں انکے بچے زیرعلاج تھے۔اس سانحے نے بائیڈن کی زندگی پر منفی اثرات مرتب کئے اور یہ خدا سے بھی متنفر ہوگئے۔ چند سال بعد انکی ملاقات ایک ماہر تعلیم محترمہ جل جیکبس سے ہوئی جنھوں نے انکی دلجوئی کی۔ جلد ہی یہ ملاقات ایک مخلصانہ رفاقت میں تبدیل ہوئی اور 1977 میں دونوں نے شادی کرلی۔ دوسری طرف انکے بچے بھی مکمل صحتیاب ہوگئے اور جوزف بائیڈن خوش و خرم رہنے لگے۔ وہ سیینٹ کی نشست پر مسلسل 6 بار منتخب ہوئے۔ امریکہ میں سینیٹر کی مدت 6 برس ہے گویا وہ 36 سال تک سینیٹ کے رکن رہے۔

اسی کیساتھ انھوں نے امریکی صدارت کیلئے قسمت آزمائی جاری رکھی۔ 1988 کے انتخابات میں انھوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کی ٹکٹ کی خواہش ظاہر کی لیکن نوشتہ دیوار پڑھ کر دستبردار ہوگئے۔ اسی دوراں انھیں ایک دماغی عارضہ لاحق ہوا لیکن جلد ہی وہ صحتیاب ہوگئے۔ انھوں نے یکسوئی کیساتھ سینیٹ کی خارجہ کمیٹی میں دلچسپی لینی شروع کردی، 2007 میں وہ سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کے سربراہ مقرر ہوئے۔

وہائٹ ہاوس کا خواب آنکھوں میں سجائے جو بائیڈن 2008 میں ایک بار پھر صدارتی دوڑ میں شامل ہوگئےاور بھرپور مہم چلائی۔ وہ پرائمری انتخابات میں تو اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکے لیکن انکے مخالف بارک اوباما جو بائیڈن کے مدلل انداز گفتگوسے بہت متاثر تھے۔  چنانچہ نامزدگی یقینی ہوتے ہی بارک اوباما نے جو بائیڈن کو نائب صدر کیلئے اپنا امیدوار نامزد کردیا۔نائب صدرکی حیثیت سے جوبائیڈن نے بہت ہی اخلاص اور 'فرمانبرداری' سے صدر اوباما کی نیابت کی۔


 

 

No comments:

Post a Comment