افغان انتخابات ۔ مایوس کن صورتحال
افغانستان
میں صدارتی انتخابات مکمل ہوگئے اورووٹوں
کی گنتی جاری ہے۔ اس پورے مرحلے کی سب سے مثبت بات یہ ہے کہ طالبان نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولنگ کے روز بڑے پیمانے پر حملوں سے گریز کیا۔
بعض علاقوں سے تشدد کی خبریں آئیں
لیکن زیادہ تر واقعات طالبان اور افغان و
نیٹو فوج کے درمیان تصادم کا نتیجہ تھے۔
طالبان
کا کہنا ہے کہ جب عوام خود ہی انتخابی عمل
سے دور رہے تو انھیں خالی پولنگ اسٹیشنوں پر مکھی مارتے انتخابی عملے کو نشانہ
بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ افغان انتخاب کے چند
اہم نکات:
·
الیکشن کمیشن کے
مطابق افغانستان میں اہل ووٹروں کی کل
تعداد ایک کروڑ 60 لاکھ ہے
·
ان 16 ملین لوگوں میں سے
96 لاکھ خواتین و حضرات نے ووٹ
کیلئے خود رجسٹر کرایا
·
28 ستمبر کو 18 صوبوں کے 445 پولنگ اسٹیشنوں
پر پولنگ کے عملے نے خوف کی بنا پر ذمہ داری اداکرنے سے انکار کردیا
·
ابتدائی نتائج کے
مطابق 20 لاکھ ووٹ ڈالے گئے
·
غیر جانبدار
مبصرین کا خیال ہے کہ اس میں سے نصف کے
قریب ووٹ ٹھپے بازی کا نتیجہ ہیں۔ خاص طور
سے شمال کے فارسی بان علاقوں میں ووٹ
ڈالنے کا تناسب زیادہ رہا جو دراصل
جنرل رشید دوستم کی بندوق کا نتیجہ ہے
ابتدائی
گنتی میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو برتری حاصل ہے جسکی بنیاد پر ڈاکٹر صاحب نے کامیابی کا دعویٰ بھی کردیا ہے۔ اب تک ڈاکٹر
اشرف غنی کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن خیال ہے کہ
شمالی علاقوں میں ٹھپے بازی پر
انھیں شدید تشویش ہے اور وہ ان نتائج کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرینگے۔ ایک اور
اہم امیدوار حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین
حکمتیار بھی انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے اپنے تحفظات کااظہار کرچکے ہیں۔
ابھی
یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ انتخابات کے سرکاری نتائج کے اعلان پرناکام رہنے والے
امیدواروں کا ردعمل کیاہوگا لیکن خیال یہی ہے کہ ہارنے والے امیدوار دھاندھلی کے خلاف محض الیکشن
کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹانے پر اکتفا نہیں کرینگے بلکہ 2014 کی تاریخ بھی دہرائی
جاسکتی ہے جب پشتو ں و فارسی بان تصادم تک کی نوبت آچکی تھی ۔ اگراسوقت امریکی وزیرخارجہ جان کیری دباو ڈال کر دونوں
ڈاکٹر صاحبان کو شرکت اقتدار کے فارمولے پر راضی نہ کرتے تو خونریز تصادم ہوسکتا
تھا۔
انتخابات
میں عوام کی عدم شرکت کی ایک سے زیادہ تشریح کی جاسکتی ہے۔طالبان کے ہمدرد ملاوں سے
یکجہتی میں ووٹنگ سے دور رہے۔ پولنگ اسٹیشنوں پر حملے کے خوف نے بھی بہت سے لوگوں کو پولنگ اسٹیشنوں تک آنے
سے باز رکھا جبکہ جمہوری نظام سے عوام کی مایوسی بھی عدم
شرکت کی ایک وجہ ہے۔
وجوہات
کچھ بھی ہوں عوام کی عدم شرکت سے منتخب ہونے والے صدر کا مینڈیٹ اسکے حلف اٹھانے
سے پہلے ہی مشکوک ہوچکا ہے۔