تیونس کے صدر کا انتقال
تیونس
کے پہلے منتخب صدر محمد الباجی قائد
السبسی انتقال کرگئے۔ 93 برس کے السبسی تیونس کے بانی اور ڈکٹیٹر حبیب بورقیبہ اور اسکے بعد زین العابدین بن علی کے قریبی رفقا میں تھے۔لیکن 2011 کے
انقلا ب یاسمین کے دوران وہ مظاہرین کے
ساتھ آملے اور صدربن علی کے فرار پر عبوری وزیر اعظم مقرر کئے گئے۔ موصوف ایک سکہ
بند سیکیولر تھے اور اس حد تک لبرل کہ وہ عائلی قوانین میں ترمیم کرکے وراثت
میں لڑکوں اور لڑکیوں کو برابر حصہ دینے
کے قائل تھے لیکن النہضہ کے سربراہ راشد الغنوشی نے احتجاج اور مظاہرے کے بجائے
نجی بات چیت کے ذریعے انھیں قائل کرلیا۔
ایک اور اہم بات کہ جب چند برس پہلے الجزائر نے قادیانیوں کو اقلیت قراردیا تو
السبسی نے وہی قانون تیونس میں منظور کرنے کا اعلان کیا ۔ انکا کہنا تھا کہ ہر شخص
کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کیا اجازت ہونی چاہئے لیکن مذہبی عقیدہ کو دھوکے
کی بنیادبنانا درست نہیں۔تاہم وہاں قانون
سازی کی نوبت نہیں آئی۔ السبسی کا سب سے بڑا کارنامہ 2011 کے شفاف انتخابات تھے جس
میں اخوان کی فکر سے متاثرالنہضہ نے
کامیابی حاصل کی۔ النہضہ کے سربراہ راشد الغنوشی کی قاضی حسین احمد مرحوم سے دوستی
تھی۔
2014 میں السبسی نے
سابق فوجیوں، بیوروکریٹ اور سیکیولر عناصر کو ملاکر ندائے تیونس کے نام سے ایک
سیاسی جماعت بنائی ۔ 2014 کے انتخابات میں برسراقتدار النہضہ کو ندائے تیونس کے
ہاتھوں شکست ہوگئی لیکن 217کے ایوان میں 69 نشستوں کے ساتھ وہ
ایک مضبوط حزب ا اختلاف کی حیثیت سے سامنے
آئی۔
النہضہ کے سربراہ راشد الغنوشی نے شکست تسلیم کرتے ہوئے
ندائے تیونس کی مکمل حمائت کا اعلان کیا اور کہا کہ عوامی
مینڈیٹ کا احترام میں انکی جماعت صدارت
کیلئے السبسی کی حمائت کریگی۔ خیر
سگالی کے اسی اظہار کا نتیجہ ہے کہ سیکیولر اور مذہبی عناصر میں ہم
آہنگی رہی اور فوج کی مداخلت کا
خطرہ ٹل گیا۔ اس سے پہلے سیاسی حلقے خدشہ ظاہر کررہے تھے کہ ندائے تیونس اور
النہضہ کے درمیان کشدیگی سے فوج کے مہم جو عناصر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
صد السبسی کی خواہش
تھی کہ انکے بعد انکے صاحبزادے حافظ قائد
السبسی ملک کی صدارت سنبھالیں اور اطلاعات کے مطابق انھوں نے وصیت بھی لکھ رکھی
تھی لیکن انکے انتقال پر آج آئین کے مطابق قومی اسمبلی کے اسپیکر جناب محمد الناصر نے قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھال لیا جو یقیناً ایک
مثبت پیش رفت ہے۔تیونس میں 6
اکتوبر کو پارلیمانی اور 17 نومبر کو صدارتی انتخابات ہونگے۔ رائے عامہ کے جائزوں
کے مطابق ان انتخابات میں النہضہ کی
کامیابی کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔
No comments:
Post a Comment