ایک پیج اور ایک میز
عمران
خان کی امریکہ آمد کے ساتھ ہی واشنگٹن کی غلام گردشوں میں ہلچل نظر آرہی ہے۔ہفتہ
وار تعطیل کے باوجود سنیچر کے دن دارالحکومت کے مراکز دانش میں کافی کی نشستوں پر
دلچسپ گفتگو، زیر لب مسکرا ہٹوں کے ساتھ دبی دبی بازگشت سنائی دی۔ پاکستانی وفد کی
ہئیت ہر جگہ موضوع سخن ہے۔ امریکی صحافتی حلقے جاننا چاہ رہے ہیں کہ
·
کیا وزیراعظم
عسکری قیادت کو اپنے ساتھ لائے ہیں یا
·
جنرل باوجوہ آئی
ایس ائی کے سربراہ اور وزیراعظم کے ہمراہ امریکہ کا دورہ کررہے ہیں۔
دوسری
بات میں وزن اسلئے کچھ زیادہ محسوس ہورہا ہے کہ خبروں کے مطابق آئی ایس پی آر کے
ڈائریکٹر بھی جنرل باجوہ کے وفد میں شامل ہیں جو میڈیا بریفنگ کے دوران پاکستان کی
ترجمانی کرینگے اور ضرورت پڑنے پر امریکہ و پاکستان کی باہمی دلچسپی سے متعلق قومی بیانئے کی تشریح و
تفہیم فرمائینگے۔
کچھ
ایسا ہی معاملہ نوازشریف صاحب کے دورہ امریکہ میں بھی پیش آیاتھا جب سابق پاکستانی وزیراعظم کو صدر اوباما نے مارچ 2015 میں
ملاقات کی دعوت دی جسکے ایک ماہ بعد پاک فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف کا دورہ
واشنگٹن طئے تھا۔ میاں نواز شریف کے دورہ
امریکہ کے موقع پر کئی سینئر صحافیوں نے برملا کہا کہ سویلین شریف کا دورہ محض ایک
رسم ہے حقیقی بات چیت اورمذاکرات تو اگلے ماہ خاکی شریف سے ہونگے۔اگر معاملہ صرف
صحافتی جگالی تک محدود رہتا تب بھی ٹھیک تھا لیکن امریکہ کے ایک موقر مرکزِ دانش ولسن
سینٹر یا WWICSمیں پاکستان امور کے ماہر ڈاکٹر
مائیکل کوگل نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ
پاکستانی وزیراعظم کا دورہ خاصہ کامیاب رہا لیکن اگلے ماہ دوسرے شریف کا دورہ زیادہ
اہم، دور رس اور معنی خیز ہوگا۔
اس بار بھی ایسی ہی باتیں کی جارہی ہیں۔ کچھ
ماہرین کی جانب سے یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ امریکی وزارت خارجہ کی مخالفت کے
باوجود اس ملاقات کو امریکہ اور پاکستان کی عسکری قیادت نے ممکن بنایا ہے۔بعض
لوگوں کا خیال ہے کہ عمران خان کے دورے کی اہمیت کو کم کرنے کیلئے ہندوستانی لابی
اس قسم کا افواہ پھیلا رہی ہے لیکن ان افواہوں کو تقویت اس بات سے ملتی ہے کہ وہائٹ
ہاوس سےملاقات کی تاریخ طئے ہونے پر جب پاکستانی وزارت خارجہ نے عمران خان کے دو
رہ امریکہ کااعلان کیا تو اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان
نے اس سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا اور جب کسی صحافی نے پاکستانی وزارت خارجہ کے
اعلان کا حوالہ دیا تو امریکی افسر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارےپاکستانی ہم منصب
کا بیان یقیناً درست ہوگا لیکن ہمیں وہائٹ ہاوس نے اس دورے کے بارے میں نہیں
بتایا۔
امریکی
دارالحکومت کے سفارتی، سیاسی اور عسکری حلقوں میں اس بات پر مکمل اتفاق پایا جاتا
ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا ان ملاقاتوں کا کلیدی نکتہ ہوگا۔جبکہ اقتصادیات
کے حوالے سے پاکستان امریکی منڈیوں میں ترجیحی
بنیادوں پر اپنی مصنوعات کی رسائی چاہتا ہے۔ یہ خبر بھی گرم ہے کہ عمران
خان آئی ایم ایف قرض کی واپسی کیلئے کچھ اضافی مدت کی درخواست کرینگے۔
امریکہ
کو افغانستان سے انخلا کے بعد وسطِ ایشیا
میں اپنے اثرو رسوخ کے حوالے سے شدید تحفظات ہیں اور وہ پسِ انخلا بندوبست کی ضمن
میں مثبت ضمانتوں کیلئے اسلام آباد کی طرف دیکھ رہا ہے۔ اسکے علاوہ سلامتی کے باب
میں ہندوستان کے خدشات بھی زیر بحث آئینگے جن میں لشکر طیبہ اور جیش محمد کی بیخ
کنی سرِ فہرست ہے۔ دوسرے ضمنی نکات میں انسداد انتہا پسندی کے حوالے سے مدرسہ
اصلاحات، نصاب پر نظر ثانی، دوسری آئینی ترمیم، ناموس رسالت قانون، اقلیتوں کے
تحفظات اور ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی شامل ہں۔
امریکی جانتے ہیں کہ ان معاملات پر فیصلہ کن اختیارات
کا منبع GHQہے اسی لئے وردی اور
شیروانی والوں کو ایک پیج اور ایک میز پر اکھٹا کیا جارہا ہے۔
No comments:
Post a Comment