پاکستان کے وزیراعظم جناب عمران خان صدر ٹرمپ اور امریکی
رہنماوں سے ملاقات کیلئے واشنگٹن روانہ ہوگئے۔ اس موقع پر احباب کیلئے پاک امریکہ
تعلقات کا ایک تاریخی جائزہ:
امریکہ اور پاکستان کی دوستی ہمارے یہاں کی انمل و بے جوڑ ناکام شادی کی طرح ہے جسمیں دونوں فریق ایک
دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں لیکن خاندانی وقار ، بچوں کے مستقبل اور دوسری
مجبوریوں کی بنا پر ساتھ رہنے پر مجبور ہیں ۔قیام پاکستان سے اب تک یہ تعلق
انگریزی اصطلاح میں marriage of convenienceہےاور دونوں ہی اپنے مفادات کی خاطر اس تعلق کو نباہ رہے ہیں۔
آزادی کے فوراً بعد پاکستان نے اپنا رخ واشنگٹن کی طرف کر
لیا۔ بظاہر اسکی وجہ روس کا دہلی کی طرف جھکاو تھا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ ماسکو نے
پاکستان کا امریکہ کی طرف میلان دیکھ کر دہلی سے دوستی کی یا پہلےروسیوں نے ہندوستان
کو اپنے حلقہ احباب میں شامل کیا اور جواب میں پاکستان امریکہ کا دامن تھامنے پر
مجور ہو گیا ۔ سرخ و سفید کی اس کشمکش کے دوران غیر جانبدار تحریک بھی خاصی مقبول
ہوئی لیکن اسوقت تک پاکستان پوری یکسوئی و طمانیتِ قلب کے ساتھ امریکہ کا ہو چکا
تھا۔جلد ہی پاکستان سینٹو ) معاہدہ بغداد(اورجنوب مشرقی ایشیا معاہدہ یا سیٹو کا رکن بن گیا۔
1965 کی جنگ پاک امریکہ دوستی کا پہلا امتحان تھا۔ سیٹو اور سینٹو معاہدات کے تحت امریکہ،
برطانیہ ، فرانس، آسٹریلیا نیوزی لینڈ، فلپائن، تھائی لینڈ، ایران اور ترکی پاکستان
کی مدد کے پابندتھے مگر ایران اور ترکی کے علاوہ کسی بھی اتحادی نے پاکستان کا ساتھ نہ دیا۔ صدر ایوب نے
اس سلسلے میں براہِ راست صدر جانسن سے شکوہ کیا اور بات "اب ایسا نہیں ہوگا" کے وعدے پر
ختم ہو گئی۔
اس تجدید عہد کے
صرف چھ سال بعد1971 میں اسلام آباد نے ایک بار پھر اپنے اتحادیوں کوپکارا اور
جواب میں چھٹے امریکی بحری بیڑے کی نوید سنائی دی مگرمشرقی پاکستان
"انکو" خبر ہونے سے پہلے ہی خاک ہو چکا تھا۔ صدر نکسن کے مشیر برائے
قومی سلامتی ڈاکٹر ہنری کسنجر نے وضاحت کی کہ "سیٹو اور سینٹو مشرقِ وسطیٰ
اور جنوبی ایشیا میں کمیونزم کے پھیلاو کو روکنےکیلئے بنایا گیا ہے اور ہماری
ہندوستان سےکوئی دشمنی نہیں"
1973 میں پاکستان سیٹو سے الگ ہوگیاجبکہ 1977 میں سینٹو کو ہی ختم کردیا گیا۔
1971 سے 1980 تک امریک اور پاکستان "تم
روٹھے ہم چھوٹے"کی تصویر بنے رہے حتیٰ کہ 1979 کے
آخری دنوں میں روس نے افغانستان پر حملہ کردیااور امریکہ کو ایک بار پھرپاکستان
یاد آیا ۔ معافی تلافی ،مہرو وفا کے حسین وعدوں اور نئے عہدو پیمان کے ساتھ اسلام
آباد و واشنگٹن وصل کی راحتوں سے دو بارہ لطف اندوز ہوئے۔تا ہم افغانستان سے روسی
فوجوں کی واپسی کے بعد امریکہ کو پاکستان سے کوئی دلچسپی نہیں رہی ۔
2001
میں سانحہِ ستمبر کے بعد پاکستان کی ضرورت دوبارہ محسوس ہوئی اور اس بار رومانوی
پیش بندی بالائے طاق رکھ کر امریکہ نے کھلی دھمکیوں سے تجدید وفا کی دعوت دی جسے اسلام آباد نے
"خوشی" سے قبول کر لیا۔
ہم نے اس قاتل کے آگے پہلے خنجر رکھ دیا -
پھر کلیجہ رکھ دیا،دل رکھ دیا سر رکھ دیا
افغانستان پر حملے کے وقت امریکیوں کا خیال تھاکہ کابل و
قندھار پر قبضے سےطالبان کا خاتمہ ہو جائیگا اور بچے کھچے ملاوں کی سرکوبی کیلئے
کرزئی حکومت کافی ہوگی۔ تاہم انھیں جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ وہ ایک دلدل میں پھنس
چکے ہیں چنانچہ پاکستان کی جانب نئے سرے سے رجوع کیا گیا لیکن اب بھی
سوچ اور Approach دوستی کے بجائے آقا اور غلام والی تھی جس میں ایک طرف Do moreپر اصرار اور دوسری جانب
مجبوریوں کی کتھا کہانی۔
پاک امریکہ تعلقات لشتم پشتم چلتے رہے کہ جناب ڈانلڈ ٹرمپ
امریکہ کے صدر منتخب ہوگئے۔ صدر ٹرمپ طبیعتاً ایک کاروباری آدمی ہیں جنھیں امریکہ
کا مالی مفاد سب سے زیادہ عزیز ہے۔ انھیں افغان جنگ کے بارے میں ابتدا ہی سے شدید
تٖحفظات تھے چنانچہ انھوں نے امریکی جرنیلوں کو ایک سال کا موقع دیا جسکے بعد
انھوں نے اس کمبل سے جان چھڑانے کا فیصل کرلیا۔
انکی بڑی کوشش تھی کہ پاکستان کو دیوار سے لگاکر افغانستاں
بھارت کو ٹھیکے پر دیدیا جائے ۔ اس مقصد کیلئے بہت ہی طمطراق سے افغانستان کو
امریکہ کی South Asiaحکمت عملی کا حصہ بنادیا گیا لیکن یہ کونپل سراٹھانے سے پہلے ہی سوکھ گئی
چنانچہ ایک بار پھر اسلام آباد سے نامہ و پیام شروع ہوا۔
گزشتہ برس ستمبر میں جناب خلیل زاد کی قیادت میں طالبان سے
براہ راست امن مذاکرات کے آغاز پر پاکستان
کو 'قابل اعتماد'اتحادی کا درجہ دیدیا
گیا۔ تاہم امریکی انتظامیہ اس پر یکسو نہیں اور وزارت خارجہ اب بھی پاکستان کے
بارے میں شدید تحفظات کا شکار ہے۔
پاک امریکہ تعلقات کا سب سے منفرد پہلو دونوں ملکوں کے
درمیان عسکری روابط ہیں۔ دنیا بھر میں وزارت خارجہ اور سیاسی قیادت باہمی تعلقات
اور ہم آہنگی کیلئے اہم کردار ادا کرتی ہے۔
لیکن یہاں باہمی تعلقات کی تشکیل میں
دونوں ملکوں کی عسکری قیادت نے انتہائی موثر کردار اداکیا ہے اور یہ کہنا غلط نہ
ہوگا کہ پاک امریکہ تعلقات دراصل GHQاور
پینٹا گون کے باہمی مراسم ہیں۔
Roots کےبجائے
Bootsکی
بنیاد پر تعلقات نے آرااور رویوں کےتضاد کوبڑاواضح کردیاہے۔ پاکستان کی رائے عامہ امریکہ کے بارے میں یکسو
نہیں تو امریکہ میں بھی انتشارِ خیال بڑا نمایاں ہے۔ امریکہ میں سر گرم عمل لابیوں
کے مفادت باہم متصادم ہیں جو پروپیگنڈے اور مختلف ترغیبات کے زریعے پالیسی سازوں
کو متاثر کرتی ہیں۔ اس شدید دباو کی وجہ سے ارباب حل و عقد کیلئے کسی نکتے پر متفق
ہونا ہی بہت مشکل ہے اور طویل بحث و مباحثے کے بعد اگر پالیسی پراتفاق رائے ہو بھی
جائے تو ان کی تشریح متنازع بنادی جاتی ہے جسکی وجہ سے ان پر عملد رآمد ممکن نہیں
ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سطح پر پئے درپئے ملاقا توں اور بار بار کی تجدید وفا کے
باوجود واشنگٹن اور اسلام آبادکے درمیان خلیج سمٹتی نظرنہیں آتی۔ ؏ ہم کہ ٹہرے اجنبی
اتنی ملاقاتوں کے بعد۔
No comments:
Post a Comment