حمائت علی شاعر۔۔۔۔
میر
حمایت علی المعروف حمائت علی شاعر
آج (16 جولائی ) ٹورنٹو کینیڈا میں
انتقال کرگئے۔
حمائت
علی شاعر 14 جولائی 1926 کو اورنگ آباد(دکن) میں پیدا ہوئے۔ شاعر صاحب کا بچپن سختیوں میں گزرا ۔
وہ جب صرف 3 سال کے تھے کہ نکی والدہ
محترمہ کا انتقال ہوگیا۔ انھوں نے پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز صحافت سے کیا اور بہت کم عمری میں روزنامہ ’خلافت‘ سے
وابستہ ہوگئے۔ جس کے بعد انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے شعبہ خبر میں کام کیا۔ 1951
میں وہ ہجرت کرکے کراچی آگئے اور ریڈیو پاکستان میں کام شروع کیا۔آگ میں پھول
کے عنوان سے 1956 میں شائع ہونے والاانکا پہلا مجموعہ کلام بے حد
مقبول ہوا جسکو کو صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازاگیا۔
حمائت علی شاعر نے 1963
میں جامعہ سندھ سے اردو ادب میں ایم اے کیا۔انھوں نے فلموں کے لیے نغمے بھی لکھے
جن میں سے کچھ آج تک بے مقبول
ہیں مثلاً:
·
نہ چھڑا سکوگے
دامن
·
ساتھیو! جاگ اٹھا
ہے سارا وطن
·
ہر قدم پر نت نئے
سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ
·
تجھ کو معلوم نہیں
، تجھ کو بھلا کیا معلوم
1976
میں اپنی اہلیہ کے اصرار پر انھوں نے فلمی
نغمے لکھنے چھوڑ دئے اور جامعہ سندھ کے شعبہ اردو میں اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے ۔
بقول حمائت علی شاعر 'اہلیہ کہتی تھیں کہ
بچے اب بڑے ہورہیں کہیں وہ بھی باپ کے
تقشِ قدم پر چلتے ہوئے فلمی شاعر نہ بن جائیں'
حمائت
علی شاعر نے تین مصرعے والے
شعر بھی کہے جسے'ثلاثی ' کا نام دیا گیا۔ شاعر صاحب کے
مجموعہ ہائے کلام 'آگ میں پھول‘،
’شکست آرزو‘، ’مٹی کا قرض‘، ’تشنگی کا سفر‘، ’حرف حرف روشنی‘،
’دود چراغ محفل‘ کو پزیرائی نصیب ہوئی۔ یہ
سارا کلام ' کلیاتِ شاعر میں یکجا کردیا
گیا ہے۔اردو کے نعتیہ کلام پر انکا
تحقیقاتی مقالہ ’عقیدت کا سفر‘ خاصہ مشہور ہے۔
حمائت علی شاعر کی منظوم خود نوشت
سوانحمعری ’آئینہ در آئینہ‘ کے
عنوان سے شایع ہوئی۔ انکا ایک بڑا کارنامہ سندھی شعرا کے اردو کلام کی تدوین ہے۔ پانچ سو سال پر محیط یہ مجموعہ 'محبتوں کے
سفیر' کے نام سے شایع ہوا۔
حمائت
علی شاعر کافی عرصے سے اپنے صاحبزادے کے ساتھ کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں مقیم تھے
جہاں کچھ عرصہ پہلے انکی اہلیہ کا انتقال ہواتھا۔ شاعر صاحب کچھ عرصے سے علیل اور
زیرعلاج تھے اور آج دل کا دورہ پڑنے سے 93 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ دعا ہے کہ
اللہ تعالیٰ انکے ساتھ نرمی و درگزر کا معاملہ فرمائے اور
انکے پسماندگان کو صبر جمیل عطا ہو۔
انکی
ایک غزل احباب کی نذر
اپنا
انداز جنوں سب سے جدا رکھتا ہوں میں
چاک دل
چاک گریباں سے سوا رکھتا ہوں میں
غزنوی
ہوں اور گرفتار خم زلف ایاز
بت شکن
ہوں اور دل میں بت کدہ رکھتا ہوں میں
ہے خود
اپنی آگ سے ہر پیکر گل تابناک
لے ہوا
کی زد پہ مٹی کا دیا رکھتا ہوں میں
میں کہ
اپنی قبر میں بھی زندہ ہوں گھر کی طرح
ہر کفن
کو اپنے گرد احرام سا رکھتا ہوں میں
دشت
غربت میں ہوں آوارہ مثال گرد باد
کوئی
منزل ہے نہ کوئی نقش پا رکھتا ہوں میں
میرا
سایہ بھی نہیں میرا اجالے کے بغیر
اور
اجالے کا تصور خواب سا رکھتا ہوں میں
No comments:
Post a Comment