عمران خان کا دورہ امریکہ اور ٹرمپ کارڈ
تادم
تحریر عمران خان امریکہ میں ہیں۔ پاکستانی وزیراعظم 20 جولائی کی شام قطر ائرویز
کی عام پرواز سے امریکی دارالحکومت واشنگٹن پہنچے جہاں وہائٹ ہاوس کی پروٹوکول افسر
محترمہ میری کیٹ فشر اور امریکہ میں
پاکستان کے سفیرنے انکا استقبال کیا۔ اس موقع پر وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی بھی
موجود تھے جو وزیراعظم کے دورے کی تیاری کیلئےدو دن پہلے واشنگٹن آئے تھے۔ وزیر
اعظم وہائٹ ہاوس کے سرکاری مہمان خانے بلئیر ہاوس کے بجائے پاکستانی سفارت خانے
میں ٹہرے ہوئے ہیں۔
دورے
کی تفصیل اور تجزئے سے پہلے قارئین کی دلچسپی کیلئے پاک امریکہ تعلقات کا ایک مختصر
سا جائزہ پیش خدمت ہے۔ امریکہ اور پاکستان کی دوستی ہمارے یہاں کی انمل و بے جوڑ
ناکام شادی کی طرح ہے جسمیں دونوں فریق ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں
لیکن خاندانی وقار ، بچوں کے مستقبل اور دوسری مجبوریوں کی بنا پر ساتھ رہنے پر
مجبور ہیں ۔قیام پاکستان سے اب تک یہ تعلق انگریزی اصطلاح میں marriage
of convenienceہےاور
دونوں ہی اپنے مفادات کی خاطر اس تعلق کو نباہ رہے ہیں۔
پرویز مشرف کے دور میں جب امریکہ کی وزیرخارجہ
محترمہ ہیلری کلنٹن پاکستان تشریف لائیں تو انکے اصرار پر عام خواتین کےساتھ انکی
ایک نشست کا اہتمام کیاگیا۔ ہلیری صاحبہ جاننا چاہتی تھیں کہ پاکستان کی عام
خواتین امریکہ کے بارے میں کیا سوچتی ہیں۔ جب کلنٹن صاحبہ نے سوال کیا کہ خواتین
کی پاک امریکہ تعلقات کے بارے میں کیا رائے ہے تو ایک خاتون نے بہت ہی معصومیت سے
کہا کہ مجھے تو امریکہ وہ نٹ کھٹ ساس لگتی ہے جو بہو سے کبھی خوش ہی نہیں ہوتی۔ اس جواب پر خود کلنٹن صاحبہ ہنس ہنس کر دہری ہوگئیں لیکن اس
گھریلو خاتون نےپاک امریکہ تعلقات کے تمام پہلووں ایک کوزے میں بند کردیا تھا۔
آزادی
کے فوراً بعد پاکستان نے اپنا رخ واشنگٹن کی طرف کر لیا۔ بظاہر اسکی وجہ روس کا
دہلی کی طرف جھکاو تھا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ ماسکو نے پاکستان کا امریکہ کی طرف
میلان دیکھ کر دہلی سے دوستی کی یا پہلےروسیوں نے ہندوستان کو اپنے حلقہ احباب میں
شامل کیا اور جواب میں پاکستان امریکہ کا دامن تھامنے پر مجور ہو گیا ۔ سرخ و سفید
کی اس کشمکش کے دوران غیر جانبدار تحریک بھی خاصی مقبول ہوئی لیکن اسوقت تک
پاکستان پوری یکسوئی و طمانیتِ قلب کے ساتھ امریکہ کا ہو چکا تھا۔جلد ہی پاکستان
سینٹو یا معاہدہ بغداداورجنوب مشرقی ایشیا معاہدے کا رکن بن گیا جسے سیٹو کہا جاتا
تھا۔
1965
کی
جنگ پاک امریکہ دوستی کا پہلا امتحان تھا۔ سیٹو اور سینٹو معاہدات کے تحت امریکہ،
برطانیہ ، فرانس، آسٹریلیا نیوزی لینڈ، فلپائن، تھائی لینڈ، ایران اور ترکی
پاکستان کی مدد کے پابندتھے مگر ایران اور ترکی کے علاوہ کسی بھی اتحادی نے
پاکستان کا ساتھ نہ دیا۔ صدر ایوب نے اس سلسلے میں براہِ راست صدر جانسن سے شکوہ
کیا اور بات "اب ایسا نہیں ہوگا" کے وعدے پر ختم ہو گئی۔
اس
تجدید عہد کے صرف چھ سال بعد1971 میں اسلام آباد نے ایک بار پھر اپنے اتحادیوں
کوپکارا اور جواب میں چھٹے امریکی بحری بیڑے کی نوید سنائی دی مگرمشرقی پاکستان
"انکو" خبر ہونے سے پہلے ہی خاک ہو چکا تھا۔ صدر نکسن کے مشیر برائے
قومی سلامتی ڈاکٹر ہنری کسنجر نے وضاحت کی کہ 'سیٹو اور سینٹو مشرقِ وسطیٰ اور
جنوبی ایشیا میں کمیونزم کے پھیلاو کو روکنےکیلئے بنایا گیا ہے اور ہماری ہندوستان
سےکوئی دشمنی نہیں'1973 میں پاکستان سیٹو
سے الگ ہوگیاجبکہ 1977 میں سینٹو کو تحلیل کردیا گیا۔
1971
سے
1980 تک امریک اور پاکستان "تم روٹھے ہم چھوٹے"کی تصویر بنے رہے حتیٰ کہ
1979 کے آخری دنوں میں روس نے افغانستان پر حملہ کردیااور امریکہ کو ایک بار
پھرپاکستان یاد آیا ۔ معافی تلافی ،مہرو وفا کے حسین وعدوں اور نئے عہدو پیمان کے
ساتھ اسلام آباد و واشنگٹن وصل کی راحتوں سے دو بارہ لطف اندوز ہوئے۔تا ہم
افغانستان سے روسی فوجوں کی واپسی کے بعد امریکہ کو پاکستان سے کوئی دلچسپی نہیں
رہی ۔
2001 میں سانحہِ ستمبر کے بعد پاکستان کی ضرورت دوبارہ محسوس
ہوئی اور اس بار رومانوی پیش بندی بالائے طاق رکھ کر امریکہ نے کھلی دھمکیوں سے
تجدید وفا کی دعوت دی جسے اسلام آباد نے "خوشی" سے قبول کر لیا۔گویا
ہم نے
اس قاتل کے آگے پہلے خنجر رکھ دیا - پھر کلیجہ رکھ دیا،دل رکھ دیا سر
رکھ دیا
افغانستان
پر حملے کے وقت امریکیوں کا خیال تھاکہ کابل و قندھار پر قبضے سےطالبان کا خاتمہ
ہو جائیگا اور بچے کھچے ملاوں کی سرکوبی کیلئے کرزئی حکومت کافی ہوگی۔ تاہم انھیں
جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ وہ ایک دلدل میں پھنس چکے ہیں چنانچہ پاکستان کی جانب نئے
سرے سے رجوع کیا گیا لیکن اب بھی سوچ اور Approach دوستی
کے بجائے آقا اور غلام والی تھی جس میں ایک طرف Do moreپر
اصرار اور دوسری جانب مجبوریوں کی کتھا کہانی۔
پاک
امریکہ تعلقات لشتم پشتم چلتے رہے کہ جناب ڈانلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر منتخب ہوگئے۔
صدر ٹرمپ طبیعتاً ایک کاروباری آدمی ہیں جو ہر مسئلے کو ڈالر اور سینٹ کی میزان پر
تولتے ہیں۔ انھیں افغان جنگ کے بارے میں ابتدا ہی سے شدید تٖحفظات تھے جہاں امریکہ
کا سالانہ خرچ 70 ارب ڈالر کے قریب ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے جرنیلوں کو ایک سال کا
موقع دیا جسکے بعد انھوں نے اس کمبل سے جان چھڑانے کا فیصل کرلیا۔انکی بڑی کوشش
تھی کہ پاکستان کو دیوار سے لگاکر افغانستاں بھارت کو ٹھیکے پر دیدیا جائے ۔ اس
مقصد کیلئے بہت ہی طمطراق سے افغانستان کو امریکہ کی South
Asiaحکمت
عملی کا حصہ بنادیا گیا لیکن یہ کونپل سراٹھانے سے پہلے ہی سوکھ گئی چنانچہ ایک
بار پھر اسلام آباد سے نامہ و پیام شروع ہوا۔
گزشتہ
برس جناب زلمےخلیل زاد کی قیادت میں طالبان سے براہ راست مذاکرات کے آغاز پر
پاکستان کو 'قابل اعتماد'اتحادی کا درجہ دیدیا گیا۔ تاہم امریکی
انتظامیہ اس پر یکسو نہیں اور وزارت خارجہ اب بھی پاکستان کے بارے میں شدید تحفظات
کا شکار ہے۔پاک امریکہ تعلقات کا سب سے منفرد پہلو دونوں ملکوں کے درمیان عسکری
روابط ہیں۔ دنیا بھر میں وزارت خارجہ اور سیاسی قیادت باہمی تعلقات اور ہم آہنگی
کیلئے اہم کردار ادا کرتی ہے۔ لیکن یہاں باہمی تعلقات کی تشکیل میں دونوں ملکوں کی
عسکری قیادت نے انتہائی موثر کردار اداکیا ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاک
امریکہ تعلقات دراصل GHQاور پینٹا گون کے باہمی مراسم ہیں۔
عمران
خان کے دورے کا تجزیہ کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کے امتیازی اوصاف اور طرزسیاست پر
طائرانہ نظر ڈالنا ضروری ہے۔ صدر ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد امریکہ کے
طرزحکمرانی میں خاصی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ امریکی صدر سیاست میں نوواردہیں۔انھوں
نے 2016 میں زندگی کا پہلا انتخاب لڑا اور دنیا کے سب سے مضبوط ملک کے صدر منتخب ہوگئے۔
انھیں روائتی سیاست کا کوئی تجربہ نہیں اور وہ اسی انداز میں حکومت چلانے کی کوشش
کررہے ہیں جیسے وہ ٹرمپ کارپوریشن کو چلارہے تھے۔ انھیں مول تول کی صلاحیتوں پر
بڑاناز ہے لیکن وہ بات چیت کے دوران رعائت دینے کے قائل
نہیں۔ یا یوں کہئے کہ مذاکرات کی میز پر وہ کچھ لو اور کچھ دو کے بجائے مخالف کو
تعریف کی بلی چڑھا کر سب کچھ سمیٹ لیتے ہیں۔ چونکہ وہ دنیا کے مضبوط ترین ملک کے
صدر ہیں اسلئے انھیں عام طور سے جھکنے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔اس سنگدلانہ طرز
مذاکرات کی بہترین مثال شمالی کوریا ہے۔ وہ چئیر مین کم جونگ انھ سے تین بار
ملاقات کرکے خودکو عظیم ترین مدبر ثابت کرچکے ہیں۔وہ فخر سے کہتے ہیں کہ انھوں نے
شمالی کوریاسے براہ راست مذاکرات کا آغاز کرکے خوفناک جوہری جنگ کے خطرے کو ٹال
دیا۔ صدر ٹرمپ اس بات پر پھولے نہیں سماتے کہ وہ امریکہ کے پہلے صدر ہیں جنھوں نے
شمالی کوریا کی سرزمین پر قدم رکھ کر امن کی نئی تاریخ رقم کردی ہے لیکن وہ شمالی
کوریا پر سے اقتصادی پابندیاں ختم کرنا تو درکنار، دوا، غذا اور پیٹرول کے معاملے میں بھی رعائت دینے کو
تیار نہیں۔
اس
نشست میں ملاقاتوں کی روداد ٖغیر ضروری ہے
کہ سب کچھ اخبارات میں تفصیل سے شائع ہوچکا ہے۔ یہاں ہم ان ملاقاتوں اور وعدے وعید
کا ایک تجزیہ پیش کرینگے جس سے قارئین کو اندازہ ہو کہ مستقبل کی صورت گری کس نہج
پر متوقع ہے۔
عمران
خان کے دورےکا ایک بڑا پروگرام انکا جلسہ عام تھا۔ کہا تو یہ جارہا تھا کہ وہ
امریکہ میں مقیم پاکستانیوں سے خطاب کرینگے لیکن یہ انکے مخصوص کنٹینر خطاب کی
شرطیہ نئی کاپی تھی۔ بلاشبہ حاضری کے اعتبار سے یہ بہت بڑا جلسہ تھا جس میں امریکہ
کے تقریباً ہرشہر بلکہ کنیڈا سے بھی لوگ آئے اور حاضرین کا جوش و خروش دیدنی
تھا۔خانصاحب کے خطاب پر ایک تجزیہ نگار نے کہا کہ عمران خان نے اپنی بے پناہ
مقبولیت تو ثابت کردی لیکن وہ تدبر اورقابلیت نہ دکھا سکے۔ ملک سے باہر اپنے
مخالفین کو چور، ڈاکو اور ڈیزل کہنا گھر کے گندے کپڑے شارع عام پر دھونے کے مترادف ہے جو ایک قداآور
رہنما کے شایان شان نہیں۔
جہاں
تک ملاقاتوں کے ایجنڈے اور وہاں ہونے والی گفتگو کو تعلق ہے تو امریکی دارالحکومت
کے سفارتی، سیاسی اور عسکری حلقوں میں اس بات پر مکمل اتفاق پایا جاتا ہے کہ
افغانستان سے امریکی انخلا ان ملاقاتوں کا کلیدی نکتہ تھا۔ امریکہ کو افغانستان سے
انخلا کے بعد وسطِ ایشیا میں اپنے اثرو رسوخ کے حوالے سے شدید تحفظات ہیں اور وہ
پسِ انخلا بندوبست کی ضمن میں مثبت ضمانتوں کیلئے اسلام آباد کی طرف دیکھ رہا ہے۔
اسکے علاوہ علاقائی سلامتی کے باب میں ہندوستان کے خدشات بھی زیر بحث آئے جن میں
لشکر طیبہ اور جیش محمد کی بیخ کنی سرِ فہرست ہے۔ جبکہ اقتصادیات کے حوالے سے
پاکستان امریکی منڈیوں میں ترجیحی بنیادوں پر اپنی مصنوعات کی رسائی چاہتا ہے۔ یہ
خبر بھی گرم ہے کہ عمران خان آئی ایم ایف قرض کی واپسی کیلئے کچھ اضافی مدت کی
درخواست کی ہے۔ دوسرے ضمنی نکات میں انسداد انتہا پسندی کے حوالے سے مدرسہ
اصلاحات، نصاب پر نظر ثانی، دوسری آئینی ترمیم، ناموس رسالت قانون، اقلیتوں کے
تحفظات اور ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی شامل ہیں۔
ڈاکٹر
شکیل آفریدی کی رہائی کو وزیراعظم نے
ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے منسلک کردیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے سامنے صحافیوں سے گفتگو کے
دوران عمران خان نے دوٹوک انداز میں کہا کہ عافیہ صدیقی کے مسئلے پر صدر ٹرمپ سے
بات ہوگی جس پر امریکی صدر نے افغانستان میں اپنے ایک یرغمالی کا ذکر کیا۔ پاکستان
اس یرغمالی کی رہا کرانے کی کوشش کررہاہے۔ شام کو فاکس ٹیلی ویژن پر انٹرویو میں
بھی وزیراعظم نے عافیہ کے بدلے شکیل آفریدی کی رہائی کی تجویز دی۔ پاکستانی سیاست
پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ اوپر درج اکثر معاملات پر فیصلہ کن اختیارات کا
منبع GHQہے شائد
اسی لئے امریکیوں نے وردی اور شیروانی والوں کو ایک پیج اور ایک میز پر اکھٹا کیا تھا۔
امریکی
تجزیہ نگاروں کے خیال میں زمینی حقائق کے
ساتھ امریکہ کے سیاسی حالات بھی کسی حد تک پاکستان کی موافقت میں ہیں۔امریکی وزارت
دفاع اور محکمہ تجارت کے افسران کا کہنا ہے کہ چین سے تجارتی جنگ اور ہندوستان کی
غیرمنصفانہ درآمدی محصولات کی بناپر واشنگٹن تجارت کے حوالے سے تعلقات کی نئی جہت
تلاش کررہاہے ۔کہا جارہا ہے کہ وفود کے درمیان بات چیت کے دوران توانائی اور 5 جی
موبائل ٹیکنالوجی کے میدان میں مواقع اور امکانات پر
بھی بات چیت ہوئی۔ اس سلسلے میں وزیراعظم کے مشیر تجارت جناب رزاق داود کی مہارت
مفید ثابت ہوئی۔ موصوف بہت اچھا ہوم ورک کرکے امریکہ تشریف لائے تھے۔
تاہم امریکی دفترِ خارجہ میں پاکستان کے خلاف مزاحمت اب
بھی عروج پر ہے۔یہاں پاکستان مخالف لابی کے روحِ روان وائٹ ہاوس کے سابق ڈپٹی پریس
سکریٹری شری راج شاہ ہیں جو اب یہ محکمہ چھوڑ کر فاکس ٹیلی ویژن سے بطورسینئر نائب
صدر وابستہ ہوچکے ہیں لیکن وزارت خارجہ میں انکے اثرات اب بھی بہت گہرے ہیں۔وزیرخارجہ
پومپیو اور قومی سلامتی کیلئے صدرکے مشیر جان بولٹن کااسلام اور پاکستان کےبارے میں متعصبانہ رویہ بھی بڑا
واضح ہے اور یہ حضرات صدر ٹرمپ کی طبیعت سے فائدہ اٹھاتے ہوئےکچھ حساس معاملات پر پاکستان
کو رگیدنے میں مصرو ف ہیں جن میں دہشتگردی اور عسکریت پسندی کی بیخ کیلئے امریکہ
کی خواہش کے مطابق حکمت عملی کی تشکیل، Blasphemy قوانین میں مناسب ترمیم کے ذریعے آزادی اظہارِ رائے کی
ضمانت شامل ہیں۔
وزارت خارجہ کے متعصب حلقوں کا ڈنک نکالنے کیلئے وزیراعظم نے
امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم سے ملاقات کی۔ سینیٹر لنڈسے گراہم صدر ٹرمپ کے قریبی
رفیق اور نظریاتی حلیف ہیں۔ سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے انصاف کے سربراہ کی حیثیت
سے پالیسی ساز حلقوں مٰیں انکا اثرورسوخ بہت زیادہ ہے۔لنڈسے گراہم افغانستان پر
گہری نظر رکھتے ہیں اور وہ اس ضمن میں پاکستان کے کردار کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے وہ پاکستان آئے تھے جہاں
انھیں GHQنے تفصیلی بریفنگ دی تھی۔ صدر ٹرمپ سے ملاقات سے پہلے سینٹڑ
صاحب سے تبادلہ خیال دراصل پالیسی ساز حلقے کی ذہن سازی کی ایک کامیاب کوشش تھی۔
اٖفغانستان سے انخلاکے معاملے پر امریکی فوج کے نئے چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملے کو بھی تحفظات
ہیں اور اس سلسلے میں چند دن پہلے انکا بڑاجذباتی بیان سامنے آیا تھا۔ پینٹاگوٓں
حکام کے مطابق باقاعدہ مذاکرات سےپہلے آئی آیس آئی کے سربراہ نے انھیں بھی اعتماد
میں لیا۔
قومی سلامتی کے تعلق سے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ
کشمیر ہے جس پر بہت ہی دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی۔ عمران خان نے صدر ٹرمپ سے ثالثی
کی درخواست کی جس پر امریکی صدر نے کہا کہ دوہفتہ پہلے بھارتی وزیراعظم نے بھی
ثالثی کی بات کی ہے اور اگر دونوں فریق راضی ہوں تو وہ اس خدمت کیلئے تیار ہیں۔ یہ
سن کر عمران خان نے کہا کہ اگر آپ کی کوششوں سے مسئلہ حل ہوجائے تو علاقے کے ایک ارب سے زیادہ
لوگ آپ کو دعائیں دینگے جس پر صدر ٹرمپ مزید جذباتی ہوئے اور انھوں نے صحافیوں کے
سامنے ثالثی کا وعدہ کرلیا۔ لیکن چند ہی
منٹ بعد بھارتی وزرات خارجہ کے ترجمان نے ایک ٹویٹ میں اس بات کی بہت ہی غیر مبہم
تردید کردی کہ وزیر اعظم مودی نے صدر ٹرمپ سے ثالثی کیلئے کہا ہے۔ گویا بھارتیوں نے
صدر ٹرمپ کو جھوٹا کہدیا۔ اس ضمن میں جوبات کسی حد تک مشکوک لگ رہی ہے وہ ہندوستان
کی اس 'جسارت' پر صدر ٹرمپ کا غیر ضروری تحمل ہے۔ امریکی صدر نے ابھی تک اپنا ردعمل
ظاہر نہیں کیا ورنہ انکا غصہ ضرب المثل ہے اور وہ ترنت اور تیکھا جواب دیتے ہیں۔
امریکی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ مذکرات کے دوران
پاکستانی وفد کے عسکری ارکان نےافغانستان سے امریکہ کی گلوخلاصی کا ٹرمپ کارڈ بہت
حکمت سے کھیلا ہے۔ افغانستان چچا سام کے گلے میں پھنسی ایسی چھچھوندرربن گئی ہے
جسے سالم نگل لینا امریکہ کیلئے ممکن نہیں اور صرف اسلام آبادہی پیٹھ اور گردن پر حکمت و تعلقات کا دست شفقت
پھیر کر اسے بلا اذیت اگلنے میں واشنگٹن کی مددکرسکتا ہے۔ افغانستا ن سے امریکی
اسباب و افراد کے محفوظ وموقر انخلا کی کنجی صرف اور صرف پاکستان کے پاس ہے ۔ اس
حقیقت کو امریکہ کے علاوہ روس چین ، ایران ، وسط ایشیا حتٰی کہ دہلی نے بھی اب
تسلیم کرلیا ہے۔امریکی وزارت دفاع کے حکام اعتراف کررہے ہیں کہ پاکستان اسیCoattail
پر مذاکرات کی نیا کو اگر پار نہیں
لگا سکا تو کم ازکم وقتی طور پر ہی سہی بھنور سے نکالنے میں ضرور کامیاب ہوگیا ہے۔
لیکن معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں۔ امریکی
صدر اورعمران خان کی ملاقات کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا ہے اس میں
افغانستان اور انسدادِدہشت گردی کے باب میں پاکستان سے امریکی توقعات کا تفصیلی
ذکر ہے۔ اعلامئے میں افغان امن مذاکرات کیلئے سہولت کاری اور علاقے کی سلامتی و انسدادِ دہشت کیلئے پاکستان
کے ٹھوس اقدامات کا اعتراف تو ہے لیکن ساتھ ہی اسلام آباد کو یہ بھی گوش گزار
کردیا گیا ہےکہ امریکہ پاکستان مضبوط و دیرپا شراکت
داری افغان مسئلے کے پرامن حل اور تنازعات کے خاتمے کی مشترکہ کوششوں سے مشروط ہے۔
یعنی تعریف و شاباش کے ڈو نگرے اپنی جگہ DO
moreکی گردان ابھی
جاری ہے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 27 جولائی 2019
No comments:
Post a Comment