امریکہ کا ملائم چہرہ
جرمنی کے نازی کیمپ میں بند بلکہ ٹھنسے
لاکھوں یہودیوں کو کسی سے ملنے کی
اجازت نہ تھی۔ اپنے جذبات کااظہار انسانی فطرت ہے لیکن
ان تنگ و تاریک کھولیوں میں روشنی اور ہوا کاگزر بھی نہ تھاقلم و قرطاس کا کیا ذکر۔ ضرورت ایجاد کی ماں
ہے چنانچہ یار لوگوں نے کئی راستے نکال
لئے۔ شعرا اور ادیبوں نے کوئلے
سے دیواروں کوگلزار کیا۔ایک خاتون مصورہ کسی طرح قلم چھپا
کر لانے میں کامیاب ہوگئی اور اس نے
دامن کے اندرکی طرف کے حصے کو کاغذ بنالیا۔ مختصر یہ کہ ہٹلر
لاکھوں بے گناہ یہودیوں کوہلاک کرنے کے باوجود اظہار رائے کو قتل نہ
کر سکا۔
جرمن کے بیگار کیمپوں ہی کی انداز میں آجکل امریکہ کی
جنوبی سرحدوں پر پنجرے آباد کئے گئے ہیں۔ یہ بات ہم نہیں کہہ رہے بلکہ آج ماہرینِ امراضِ اطفال کی امریکی انجمن American Academy of Pediatricsکے وفد نے ٹیکسس
میں ایک کیمپ کا دورہ کیا جہاں امریکہ میں
سیاسی پناہ کے لیے آنے والے بچوں کو رکھا گیا ہے۔ دورے کے بعدوفد کی سربراہ ڈاکٹر
کولین کرافٹ صاحبہ نے فرمایا کہ سگ خانہ یاDog Houseبھی اس سے بڑا اور صاف
ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے کہا کہ جب وہ کیمپ میں داخل ہوئیں تووہاں ویسی ہی تعفن تھی جیسی انتہائی غلیظ عوامی بیت الخلامیں محسوس ہوتی ہے۔ انکا کہنا
تھا کہ سوتے وقت ایک بچے کا پیر دوسرے کے سر یا پیٹ پر ہوتا ہے، ان بچوں نے کئی دن
سے منہہ نہیں دھویا، غسل کا کیا تذکرہ۔ سخت گرمی میں انکے جسموں سے امڈتی پسینے
کی بو سے ہمیں ابکائی آرہی تھی۔
ڈاکٹر صاحبہ نے وہاں
موجود چھوٹے بچوں کوقلم اور کاغذ دئے اور ان سےکہا کہ اس پر اپنے جذبات کا اظہار کرو۔ معصوموں نے مارکر
سے ان پنجروں کی تصویربنادی جن میں سے کچھ ڈاکٹر صاحبہ نے یہ کہہ کر میڈیا کو جاری
کردیں کہ یہ ہے امریکہ کا Soft Image
حسب توقع اس بات پر
صدر ٹرمپ سخت غصے میں ہیں اور ٹویٹ پیغام
میں انتہائی تکبر سے فرمایا۔
اگر ہمارے حراستی
کیمپ پسند نہیں تو امریکہ آنے کی ضرورت ہی
کیا ہے؟؟؟؟؟ کیا رعونت ہے؟؟
No comments:
Post a Comment