Tuesday, July 2, 2019

مذہب اور نسل پرستی


مذہب اور نسل پرستی
ایک فرقے کی استثنیٰ کے ساتھ جمہور یہودی سمجھتے ہیں  کہ  فلسطین انکی سرزمین ہے۔ عقیدہِ سرزمین کی بنا پر ہر یہودی کیلئے لازم ہے کہ وہ  اسرائیل (فلسطین) میں سکونت اختیار کرے۔ دنیا کے دوسرے ملکوں سے رہائش کیلئے اسرائیل کی جانب ہجرت کو عبرانی میں عالیہ (Aliyah)کہتے ہیں۔ اس سفر کی یہودیوں کے یہاں وہی برکت و فضیلت ہے جو مسلمانوں میں ہجرت کی۔
چنانچہ اس ہجرت کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے۔ نیتھین یاہو اور انکا ٹولہ مسلمانوں کا جانی دشمن  ہے لیکن دورِ جدید میں عالیہ اول  اور عالیہ دوم  1881 سے 1914 کے درمیان ہوئی جب فلسطین عثمانی سلطنت کا حصہ تھا۔ ترکوں نے مقدس ہجرت میں اپنے اہل کتاب بھائیوں کی مدد کی۔ عالیہ اول کے دوران عثمانی خلیفہ کے حکم پر  روس اور مشرقی یورپ سے ہزاروں یہودیوں کی فلسطین میں آباد کیاگیا  اور سفر کے اخراجات  مسلمان حکومت نے اداکئے۔ عالیہ دوم میں یمن، ایران، ہندوستا ن اور ایشیائی ممالک  میں آباد یہودیوں کو فلسطین لایا گیا۔ اس بار بھی ہجرت عثمانی خزانے سے ہوئی ۔
اسرائیل بننے کے بعد 1960 میں ایتھوپیا کے یہودیوں نے  اسرائیل کی طرف عالیہ کی خواہش ظاہر کی ۔ یورپ کے یہودیوں کی اسرائیل آمد پر تو گورے یہودیوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ لیکن ایتھوپیا کے 'کالے'یہودیوں کے معاملے میں اسرائیلی تذبذب ک شکار ہوئے۔ انکے کنیسہ(پارلیمینٹ) میں خوب بحث و مباحثہ ہوا اور معاملہ ٹلتا رہا۔ 1977میں جب قدامت پسند منیخم  بیگن وزیراعظم بنے تو انھوں نے اسرائیلی سیاستدانوں کو یہ کہہ کر شرم دلائی کہ جب ہمارا اپنا وطن نہ تھا تب  عثمانیوں نے  یہودیوں کیلئے عالیہ مبارکہ کا اہتمام کیا اور اب جب  ہماری اپنی ریاست بن چکی ہے تو ہم محض اسلئے ایتھوپین بھائیوں کو یہاں لانے میں پس وپیش کررہے ہیں کہ انکی جلد کا رنگ سیاہ ہے۔
اس جذباتی تقریر کا اثر ہوا ور 1979 سے 1990 تک آپریشن  برادر، آپریشن موسیٰ (ع) اور آپریشن سلیمان (ع) کے تحت   سوالاکھ کے قریب ایتھوپین  یہودی اسرائیل لائے گئے۔
تاہم  یہ سیاہ فام یہودی  تل ابیب یا بیت المقدس  کےبجائے بحرروم کے ساحلی شہر حیفہ میں بسائے گئے۔  بہانہ یہ تراشہ گیا کہ یہ لوگ ایتھوپیا میں  ساحلوں پر آباد تھے ۔ حیفہ چونکہ اسرائیلی بحریہ کا مرکز ہے اور یہ لوگ کشتی بانی کے ماہر ہیں اسلئے انھیں حیفہ میں روزگار تلاش کرنے میں آسانی ہوگی۔ مذہبی اعتبار سے ایتھوپیا کے یہودی بے حدقدامت پسند ہیں اور یہ یورپی یہودیوں کو بدعتی سمجھتے ہیں۔ انکا خیال ہے یورپ سے آنے والوں  نے  سبت سمیت بہت سی پابندیوں میں ازخودنرمی پیدا کرلی ہے۔
 اس انتہا پسندی کی بناپر ایتھوپین یہودی خود بھی الگ تھلگ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ دوسری طرف  یورپین یہودی انھیں  سوتیلا بھائی سمجھتے ہیں۔ ایتھوپین یہودیوں کو شکائت ہے کہ تعلیم اور روزگار میں انکے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے اور حکومت بھی  ایتھو  پین  یہودیوں کو مدد فراہم کرنے میں  کنجوسی سے کا م لیتی ہے۔ بدقسمتی سے امریکہ سمیت ساری دنیا میں سیاہ فام آبادی امتیازی سلوک کا شکار ہے  چنانچہ اسرائیل میں  بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ معاشی تفاوت کی وجہ سے ایتھوپین یہودیوں میں جرائم کی شرح  نسبتاً زیادہ ہے اور اسرائیلی پولیس نے 'بڑھابھی دیتے ہیں کچھ زیب داستاں کیلئے'  کے تحت  ایتھوپین یہودیوں کی  پکڑ دھکڑ ،  تشدد اور غیر ضروری فائرنگ کا نشانہ بنایا ہوا ہے۔
فائرنگ کا ایسا ہی ایک واقعہ اتوار کو حیفہ کے ایتھوپین محلے کریات  ہیم   Kiryat Haimمیں پیش آیا۔ ایتھوپین یہودیوں کا خیال کے کہ حضرت یعقوب کی ایک اہلیہ حبشہ سے تھیں جنکے بطن سے حضرت  یوسف  کے سوتیلے بھائی پیدا ہوئے۔ اسی مناسبت سے ایتھوپین یہودی خود کو   بیتِ اسرائیل یا خانوادہ حضرت یعقوب کہلوانا چاہتے ہیں جبکہ عام اسرائیلی انھیں ایتھوپین یہودی کہنے پر اصرا ر کرتے ہیں۔ اس روز کچھ ایتھوپین نو جوان سڑک کے کنارے گپ شپ کررہے تھے کہ راستے سے گزرتی پولیس موبائل کو شک ہوا۔اور گاڑی روک کر ایک افسر نے توہین آمیز انداز میں کہا او ایتھوپین! سڑک پر کھڑے  کیا کررہےہو۔ اس پر ان لوگوں نے کہا تمیز سے بات کرو ہم  بیت اسرائیل کے لوگ ہیں۔ اس جواب پر سارجنٹ حقارت سے ہنستے ہوئے بولا جیکب (حضرت  یعقوب) کے بیٹے کا حسن تو ضرب المثل تھا۔  پولیس افسر کا اشارہ حضرت یوسف کی طرف تھا۔
 اس بات پر پولیس اور ان لڑکوں میں  بحث  مباحثہ شروع  ہوا اور ایک افسر نے گولی چلادی جو 19 سالہ  لڑکے سلیمان تکاہ کے سر پر لگی۔ اسے ہسپتال لے جایاگیا جہاں اس نے د م توڑدیا۔ لڑکے کے باپ ورقہ تکاہ کا تعلق  کاہنوں (مولویوں) کے خاندان سے ہے جو سارے ملک میں مشہور ہے چنانچہ آن کی آن میں بات پھیل گئی۔ چوکوں اورچوراہوں پر نوجوانوں نے الاو روشن کردئے ۔ دوسرے د ن یہ مظاہرہ دوسرے شہروں میں پھیل گیااور تل ابیب میں زبردست مظاہرہ ہوا۔
پولیس نے اپنے دفاع میں جو دلیل دی ہے اسے کوئی بھی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ملوث افسرصاحب کا کہنا ہے کہا کہ لڑکوں نے ان پر حملہ کرنے کی کوشش کی جس پر  اس  نے ڈرانے کیلئے سامنے زمین کا نشانہ لے کر گولی چلائی لیکن زمین میں گڑے ایک پتھر سے ٹکرا کر وہ گولی سلیمان کے سر میں لگ گئی۔ ورقہ کا کہنا ہے کہ وہ انصاف لئے بغیر خاموش نہیں بیٹھے گا اور بیت اسرائیل بھی سارے ملک میں انصاف  کے حصول تک تحریک چلانے کیلئے پرعزم  ہے۔ ایتھوپین اسرائیلوں کو  تحریک جاری رکھنے کیلئےعرب  اسرائیلیوں کی صورت میں فطری اتحادی بھی میسر آگئے جو  خود پولیس  گردی کا شکار ہیں۔ چند ہفتوں بعداسرائیل میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ 66 لاکھ آبادی والے ملک میں سوالاکھ  ایتھوپین ووٹ کچھ کم نہیں  اور پھر یہاں متناسب نمائندگی کا نظام رائج ہے جہاں ہر ووٹ شمار ہوتا ہے۔ورقہ کہنا ہے کہ اپنے بیٹے کےلہو   کو رائیگاں نہیں جانے دیگا اور سارے اسرائیل میں   نسلی امتیاز کے خاتمے  اور اقلیتوں  کے بنیادی حقوق کیلئے  تحریک چلائی جائیگی۔ مولوی مسلمان ہو یا یہودی  عزم کرلے تو مقتدرہ  کوناکوں چنے چبا دیتا ہے۔ دیکھنا ہے کہ  اسرائیل کا خانوادہ  یعقوب   کیسی  تحریک چلاتا ہے۔

No comments:

Post a Comment