فلسطینی گھروں کا انہدام
دریائے
اردن کے مغربی کنارے پر قائم فلسطینی آبادی کو محصور کرنے والی Separation Wallکے قریب عربوں کے 100گھروں کے انہدام کا کام شروع
ہوگیا۔ اسرائیلیوں نے فلسطینی آبادی کے گرد کنکریٹ کی دیوار کھینچ دی ہے جسکے دوسری
طرف یہودی آباد ہیں۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے Separation Wallکا مقصد یہودی
اور مسلم آبادی کو تقسیم کرنا ہے اسی وجہ سے
انسانی حقوق کے کارکن اور سابق
امریکی صدر جمی کارٹر نفرت کا استعارہ قراردیتے ہوئے اسے Apartheid Wallکہتے ہیں۔
بات یہاں تک بھی رہتی تو ٹھیک تھی لیکن کچھ عرصہ پہلے اسرائیلی فوج نے
علاقے کےجائزے کے بعد وادی الحمص کے صور باھر گاوں میں دیوار کے قریب واقع فلسطینی گھروں کو یہودی آبادی کیلئے خطرہ
یا Security Risk قراردیا۔ اسرائیلی
فوج نے خدشہ ظاہر کیا کہ فلسطینی دیوار کی اس جانب سے دوسری طرف یہودی آبادی پر
پتھر برسا سکتے ہیں۔ اسکے علاوی پیٹرول
بموں، آتشیں غباروں
اور شعلہ فشاں پتنگوں کے ذریعے
حملہ بھی ممکن ہے۔ چنانچہ دیوار سے 100 میٹر تک کے علاقے کو خالی کرانے کی سفارش
کی گئئ جس پر وزارت دفاع نے 100 مکینوں کو مکانات خالی کرنے کے نوٹس جاری کردیئے
اس ظالمانہ فیصلے کے خلاف شدید احتجاج ہوا۔ فائرنگ سے بہت
سے لوگ مارے گئے لیکن فوج اپنی ضد پر قائم رہی۔ کچھ 'امن پسند' بزرگوں کے مشورے پر
وادی الحمص کے لوگوں نے اسرائیلی عدالت کا
دروازہ کھٹکھٹادیا۔ گزشتہ مہینے اسرائیلی سپریم کورٹ نے اسرائیلی فوج کے حق میں
فیصلہ دیتے ہوئے فلسطینیوں کو ایک ماہ کے اندر مکانات خالی کرنے کا حکم دیدیا۔ یہ
مدت اتوار کو ختم ہوگئی چنانچہ پیر کو صبح سویرے
بلڈوزر اور مکانات منہدم کرنے کی جدید ترین مشینری لے کر اسرائیلی فوج صورباھر پہنچ گئی اور نشان زدہ مکانات کو منہدم
کرنے کا کام شروع ہوگیا ہے۔
حسب توقع مسلمانوں سمیت 'مہذب' دنیا اس ظلم پر خاموش ہے۔
No comments:
Post a Comment