مرید عباس کا المناک قتل ۔۔ موقف کی وضاحت
بول ٹی وی
کے اینکر مرید عباس کے قتل پر
ہماری پوسٹ سے تحریک انصاف کے احباب خاصے ناراض ہیں۔ انکا خیال ہے اور اب تک کی
تحقیقات سے 'ثابت' ہوچکا ہے کہ یہ قتل ذاتی دشمنی
اور کاروباری لین دین کا شاخسانہ تھا۔
تاہم
میں اپنے موقف پر قائم ہوں۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا خون نہیں کہ جسکے چھینٹے
دامنِ اقتدار پر نظر آرہے ہیں۔
·
بھٹو کے آمرانہ
دور میں جب ڈاکٹر نذیراحمد شہید کئے گئے
تو حکومت کا موقف تھا کہ یہ ڈاکٹر صاحب کے کسی غیر مطمئن مریض یا اسکے لواحقین کی کی کاروائی ہے
·
خواجہ سعد رفیق کے
والد خوجہ محمد رفیق کے قتل کو ذاتی دشمنی کا نتیجہ قراردیا گیا
·
اور تو اور احمد رضا
قصوری کے والد نواب محمد احمد قصوری کے قتل کو
بھی ابتدائی رپورٹ میں خاندانی عداوت کا سبب بتایا گیا۔بعد میں اسی الزام پر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی۔
·
2011 میں جیو کے
نمائندے ولی خان بابر کے قتل کو کراچی کے حکمرانوں نے ذاتی دشمنی قراردیا تھا۔ بعد میں مقدمے کے ایک
ایک گواہ کو بھی قتل کردیا گیا
·
گزشتہ ماہ اسلام آباد میں حکومت مخالف
بلاگر محمد بلال خان کو چھریاں مار کر قتل
کردیا گیا۔اسکے قتل کے مبینہ محرکات کے حوالے سے ایسی شرمناک باتیں کی جارہی
ہیں کہ جنکا نقل کرنا ہمارے لئے ممکن
نہیں۔
یہ بات تو واضح ہے کہ مرید عباس پر گولی چلانے
والے اسکے ذاتی دشمن تھے اور مبینہ طور پر ان میں سے ایک نے خودکشی کرنے کی
کوشش بھی کی۔ لیکن
اس قتل کے سیاسی محرکات پردہ نشیں اور
سہولت کاروں کا تعین ضروری ہے۔ موجودہ
حکومت جس منصوبہ بندی کے ساتھ صحافت اور
شہری آزادیوں کا گلا گھونٹ رہی ہے اس
تناظر میں مرید عباس کا قتل انتہائی مشکوک ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت
خون کی دھار دکھا کر سر پھرے صحافیوں کو خوفزدہ کرنا چاہتی ہے۔
تو صاحبو! میں اپنے اس
موقف پر قائم ہوں کہ مرید عباس کے
قتل میں سہولت کار کے طور پر حکومت کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
No comments:
Post a Comment