سفید جھوٹ
کشمیر
کے مسئلے پر ہندوستانی وزیراعظم کی صدرٹرمپ سے ثالثی و سہولت کاری
کی درخواست کامعمہ اب تک حل نہیں ہوا۔22 جولائی کو وہائٹ ہاوس میں وزیر اعظم عمران خان سے
ملاقات کے دوران امریکی صدر نے کہا:
میں دو ہفتہ پہلے وزیراعظم مودی کے
ساتھ تھا اور ہم (پاک وہند کشیدگی)پر بات کررہے تھے تو انھوں یعنی مودی جی نے کہا 'کیا آپ سہولت کار یا ثالث کا کردار ادا کرسکتے ہیں' ؟
میں نے کہا کس کام کیلئےَ ؟ انھوں نے کہا کشمیر کیلئے کیونکہ یہ تنازعہ سالوں سے جاری ہے'
خبر شایع ہوتے ہی ہندوستانی وزارت خارجہ کے
ترجمان شری رویش کمار نے اپنے ایک ٹویٹ
میں نریندرامودی کی جانب سے ثالثی کی کسی بھی درخواست کی سختی سے تردید کی۔ انھوں
نےکہا کہ بھارتی وزیراعظم نے صدر ٹرمپ سے
ثالثی کی کوئی درخواست نہیں کی۔ ساتھ ہی اپنے اس پرانے موقف کو دہرایا کہ پاکستان جب تک سرحد پار دہشت گردی کا قلع قمع نہیں کردیتا بات چیت نہیں ہوگی۔ ترجمان نے مزید
کہا کہ ثالثی کے بجائے مسئلہ کشمیر 1972 کے شملہ معاہدے اور 1999میں دستخط کئے
جانیوالے اعلانِ لاہور کے مطابق حل ہونا چاہئے۔
آج پارلیمان میں ہندوستانی وزیرخارجہ شری
جئے شنکر نے بھی مودی کی جانب سے ثالثی کی درخواست کی غیر مبہم تردید کی ہے۔
اسکا مطلب ہوا کہ یا تو صدر ٹرمپ نے سفیدجھوٹ بولا ہے یا نریندرا مودی
ثالثی درخواست کرکے مکر گئے ہیں۔
لوگوں کا خیال ہے کہ اگر نریندرامودی نے واقعی ثالثی کی درخواست کی ہوتی
تواب تک صدر ٹرمپ ہندوستانی وزیراعظم کی
گوشمالی کرچکے ہوتے۔ امریکی صدر انتہائی سریع الغضب ہیں اور و ہ تنقید و الزام پر
حد درجہ مشتعل ہوجاتے ہیں لیکن 2 دن گزرجانے کے باوجود انھوں نے ہندوستانی وزارت خارجہ کے ٹویٹ کا کوئی جواب
نہیں دیا حالانکہ ہندی ترجمان نے انھیں جھوٹا قراردیا ہے۔
اسکا
مطلب ہوا کہ اگرصدرٹرمپ کو انکے منصب کا فائدہ دیکر دروغ گوئی کے
الزام سے
بری کردیا جائے تب بھی موصوف نے زیبِ داستاں کیلئے بے پر کی اڑائی ہے کہ صدر
ٹرمپ کی شہرت ہی کچھ ایسی
ہے۔
اس بات سے مغربی رہنماوں کے اخلاقی
دیولیہ پن کا اظہار ہوتا کہ ابلاغ عامہ کے اس دور میں جب سوچ اور دل کی دھڑکنوں کو پوشیدہ رکھنا بھی ممکن نہیں یہ زعما دھڑلے سے بلا خوفِ تردید جھوٹ بول دیتے ہیں۔
اسی نشست میں صدر ٹرمپ نے ایرانی قیادت کو جھوٹا کہا تھا لیکن حقیقت میں دروغ گوئی کا
الزام تو امریکی صدر پر چسپاں ہوتا نظر آرہاہے۔ ائے اہلِ فکر ونظر عبرت حاصل
کرو۔
No comments:
Post a Comment