ایک
نئی زنجیر ۔ میڈیا کورٹس
امریکہ
کے جلسہِ عا م میں وزیراعظم نے بہت تفصیل سےبادشاہت کے نقصانات اور جمہوریت کی
برکات کا ذکر کیا جسکا ایک ایک لفظ حقائق پر مبنی تھا۔ انھوں نے دورعمر (ر) کی مثال دیتے ہوئے
قانون کی حکمرانی اور آزادی اظہار کی شاندار
مثالیں پیش کیں۔ لیکن حکومت کا عملی کردار
اسکے بالکل برعکس ہے۔
صحافی
دھمکیوں کا شکار ہیں۔ بلاگرز قتل کئے جارہے ہیں۔ پیمرا کی جانب سے اظہارِ وجوہ کے
نوٹسوں کی بھرمار ہے۔ادھر کچھ عرصے سے خبروں کی اشاعت رکوانے اور ناپسندیدہ
خبر کا کالم چھوٹا کرکے غیر اہم بنانے کیلئے پریس اڈوائس جاری کی جارہی
ہیں۔ یہ پریس ایڈوائس برقی خطوط یا تحریری نوٹس کے بجائے فون پر حکم عدولی کی صورت میں تشدد کا نشانہ بنانے کی
دھمکیوں کے ساتھ مل رہی ہیں۔ وفاقی
وزیراخلہ تو پہلے ہی حکومت کے خلاف سڑک
پر آنے والوں کو چھترول کی دھمکی دے چکے
ہیں۔
اسی کے
ساتھ اب سوشل میڈیاپر اکاونٹ منجمد کرنے
کیلئے فیس بک اورٹویٹر انتظامیہ سے شکائت کی جارہی ہے کہ ان پیغامات سے ملک میں
بدامنی کا خطرہ ہے۔
صحافت
کا گلا گھونٹنے کی ان کوششوں کے ساتھ گزشتہ دنوں وزیراعظم کی مشیر اطلاعات ڈاکٹر فردس عاشق اعوان نے میڈیا کورٹ کی تجویز دی ہے۔یعنی اب غیر قانونی پابندیوں کے خلاف صحافیوں کیلئے
عدالتوں سے داد رسی بھی ناممکن ہوجائیگی۔ میڈیا کورٹس کے ججوں کا تقرر وزارت
اطلاعات کریگی جو سرسری سماعت کے بعد 'باغی' صحافیوں کو قید و جرمانے کی سزا
سناسکیں گی۔
عمران
صاحب کو یہ نہیں بھولنا چاہے کہ 2013 سے پہلے ان
کی تحریک انصاف پارلیمانی حجم کے اعتبار سے بہت ہی چھوٹی اور غیر اہم جماعت تھی لیکن پاکستانی میڈیا نے انھیں 22 سال تک سیاسی پروگرام اور منشور کی اشاعت کا فراخدلانہ موقع فراہم کیا۔ انکے مہینوں پر
محیط دھرنے کو 24 گھنٹہ ٹیلی ویژن پر دکھایا گیا۔ اگر اسوقت کے 'چور' حکمران
ابلاغِ عامہ پر اس قسم کی قدغنیں عائد کردیتے تو عمران خان آج ایک سابق کرکٹر سے
زیادہ کچھ نہ ہوتے۔
صحافت
و صحافی حکومت سے کے سب سے مخلص حامی ہیں
کہ انکے آئینوں میں سرکار اپنا حقیقی چہرہ دیکھ کر دا غ دھبے دور اور میک اپ
درست کرسکتی ہے۔آئینہ توڑکر داغ چھپائے
نہیں جا سکتے بلکہ اب یہ عفیفہ
کے علاوہ ساری دنیا کو نظر آئینگے۔
No comments:
Post a Comment