درست سمت میں پہلا قدم
روزنامہ
جنگ کے مطابق سینیٹ میں قائد ایوان شبلی فراز اور بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال
نے جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی ہے۔اس گفتگو کا مقصد چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک روکنےکے لئے مولانا
کی حمائت حاصل کرنا تھا۔ عجیب اتفاق کہ صرف دون پہلے وزیراعظم عمران خان نے
واشنگٹن کے جلسے میں مولانا فضل الرحمٰن کا ذکر اس تحقیر آمیز لہجے میں کیا تھا
جواس عظیم منصب کے شایانِ شان نہ تھا جس پر خانصاحب فائز ہیں۔ عمران خان اور انکے
رفقا ایک عرصے سے مولاناکورکیک حملوں کا نشانہ بنارہے ہیں ۔
ذاتی
حملوں اور الزامات سے لتھڑی سیاست کا اگر غیر جانبدرانہ تجزیہ کیا جائے تو خیبر
پختونخواہ کے رہنماوں کا کردار اور طرزعمل نسبتاً مہذب و شریفانہ ہونے کیساتھ مفاہمت کی طرف
مائل نظر آتاہے۔ وفاقی وزیر مرادسعید کے سواعلاوہ صوبے سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے تقریباً تمام رہنما مولانا فضل الرحمٰن،
اسفندیارولی، محموداچکزئی اور سراج الحق
سمیت اپنے مخالفین سے رابطے میں ہیں اور ان رہنماوں کا ذکر عزت و احترام سے کرتے
ہیں۔ اس ضمن میں سینیٹر شبلی فراز، اسپیکر اسد قیصر ، پرویز خٹک
اور KPKکے دوسرے رہنماوں کا
رویہ انتہائی شائستہ ہے۔رکھ رکھاو، رواداری، برداشت ، بزرگوں اورعلما کا احترام
پشتون ثقافت کا حصہ ہے جسکا اظہاران لوگوں کے طرزعمل سے ہوتا ہے۔
سیاسی کشیدگی ، گالی گلوچ اورذاتی حملوں کے تناظر میں
مفاہمت کیلئے سینیٹرشبلی فراز کی کوششیں قابل تحسین ہیں۔ وطنِ عزیز کو جن حالات کا
سامنا ہے اسکے لئے ملک کی تمام سیاسی قوتوں کے درمیان اصولی اختلاف اور انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے باہمی تعاون
وقت کی ضرورت ہے۔فیس بک پر بہت سے لوگ تحریک انصاف کی مولانا سے ملاقات کو پی ٹی
آئی کی منافقت اور خودغرضی قراردے رہے ہیں لیکن ہمارے خیال میں یہ قدم قابل تحسین
ہے ۔ سیاست مزاحمت نہیں بلکہ مفاہمت کانام
ہے اورانھیں فیصلوں میں برکت ہے جوکثرتِ رائے کے بجائے اتفاق رائے سے کئے جائیں۔
پاکستان کی سیاست میں مولانا فضل الرحمٰن کا اہم کردارو
مقام ہے۔ پارلیمانی حجم کے اعتبار سے MMA قومی اسمبلی کی چوتھی بڑی جماعت ہے۔ ان رابطوں کے نتیجے میں اگریہ دو نوں مل کر کام کرنے پر رضامند ہوجائیں
تو اس میں سب کا فائدہ ہے۔ بلکہ مولانا سے
وفاق میں شرکت ِ اقتدار کا معاہدہ کرکے عمران خان ایم کیو ایم ، ق لیگ، GDAاوردوسرے اتحادیوں کی
بلیک میلنگ سےمحفوظ ہوسکتے ہیں۔ اس اتحاد
سے قومی اسمبلی میں حکمراں اتحاد کا پارلیمانی حجم 173 ہوجائیگا جو 342
رکنی ایوان میں واضح اکثریت کیلئے کافی ہے۔
مفاہمت کے نتیجے میں قانون سازی سہل اور
طرزِ حکمرانی میں بہتری آسکتی ہے جسکی اسوقت ملک کو شدید ضرورت ہے۔ لیکن اسکے لئےعمران
خان کو کنٹینر سے اتر کر متانت و بردباری اختیار کرنی ہوگی۔
No comments:
Post a Comment