Friday, July 19, 2019

ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند


ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند   
 ستارے اور سیارے   نزول ِ آدم (ع)کے وقت سے  انسانوں کی  توجہ کا مرکز رہے ہیں سے  اور  آسمان  پر جگمگاتی  کہکشاں  کو  اہل زمین بہت  اشتیاق سے دیکھتے آئے ہیں۔ حضرت ابراہیم کے اس مشاہدے کا ذکر قرآن میں بھی ہے۔ نبی مہربان  بھی جب رات کو اٹھتے تو آسمان  کی طرف  دیکھتے ہوئے   فرماتے 'اے ہمارے رب بیشک  آپ نے یہ سب کچھ بیکار نہیں پیدا کیا۔ پاک ہے آپکی ذات ، ہمیں  آگ کے عذاب سے نجات عطا فرمایئے'
8 سے 80 سال تک کا ہر شخص  چنداماما تک رسائی کا خواہشمند ہے۔
 آج یعنی 20 جولائی  تسخیر ماہتاب  کی 50 ویں سالگرہ ہے جب  1959 کو اسی دن امریکہ کے خلانورد نیل آرمسٹرانگ  نے چاند پر قدم  رکھا۔ حضرت انسان کی اس عظیم الشان کامیابی پر چند سطور:
جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا چاندپر جانے کیلئے انسان ہمیشہ سے مشتاق رہا ہے۔  چندا ماما کی جانب  راکٹ  بھیجنے کا اغاز 1958 میں ہوا۔اس میدان میں  سویت یونین(سابق روس) اور امریکہ کے درمیان زبردست مقابلہ رہا۔
13 ستمبر 1959 کو انسانی تاریخ کا پہلا راکٹ چاند پر پہنچا یہ روس کا  لونا 2(Luna-2)تھا ۔ لونا نے چاند کی سطح پر سوڈیم  گیس  بکھیری جسکا بنیادی مقصد تصویر کشی کیلئے روشنی کی فراہمی تھی۔ لونا نے چاند پر تابکاری کو ناپنے اور جانچنے کی بھی  کوشش کی۔ خلانوردی کے میدان میں بلاشبہ یہ  بہت بڑی کامیابی  تھی تاہم اس مشق کے دوران   کسی خلاباز نے چاند پر قدم نہیں رکھا۔
اسکے 11 سال بعد 20 جولائی9 196کو امریکی خلائی جہاز اپالو 11(Appolo11)چاند پر پہنچا جو 16 جولائی کو کنیڈی اسپیس سینٹر سے روانہ ہواتھا۔ خلائی جہاز کے چاند کے قریب  پہنچنے پر    مشن کے سربراہ نیل آمسٹرانگ  اور ایڈورڈآلڈرن  چاند گاڑی  سے ذریعے چاند پر پہنچے جبکہ   مائیکل کولن اپالو  اڑاتے رہے۔
 چاندگاڑی کےمقررہ مقام پر  رکتے ہی  نیل  آرمسٹرانگ  نے چاند پر قدم  رکھتے ہی کہا   ' چاند پر  انسان کا یہ  چھوٹا سا قدم انسانیت کی بہت بڑی جست ہے' نیل آرمسٹرانگ  نے  چاند پر 19 منٹ  تن  تنہا  چہل  قدمی کی جسکے بعد انکے ساتھی ایدڑور آلڈرن  چاند گاڑی سے باہر آئے اور یہ دونوں مجموعی طور پر سوا دوگھنٹے   چاند پر رہے۔ اس دوران انھوں   وہاں  امریکہ کا جھنڈا نصب کیا اور  مختلف  مقامات  پر چاند کی سطح  کو کرید اور کھود کر نمونہ حاصل کیا کیا مجموعی وزن  47.5 تھا۔
اس ضمن میں ہم پاکستانیوں کیلئے فخر کی بات یہ  ہےکہ ان نمونوں  کا ابتدائی  تجزیہ جامعہ کراچی کے شعبہ کیمیا کے فارغ التحصیل  سائنسدان ڈاکٹر لیاقت   حسین نے کی جو اسوقت   نیویارک کی انوائرمینٹل  لیب  کے ڈائریکٹر تھے۔ ہمیں  بھی ایک معمولی سے ٹیکشین کےطور پراسی لیب  میں  ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کام کا موقع ملا ہے۔اسی طرح  خلائی تحقیق کے ادارے کینڈی  اسپیس سینٹر سے پاکستانیوں سمیت درجنوں مسلمان سائینسدان وابستہ ہیں اور احساس کمتری کے مارے دانشوروں کے اس ماتم میں کوئی صداقت نہیں کہ  سائینس و ٹیکنالوجی کے میدان میں مسلمان بالکل پیدل ہیں اور ایجادات اور ریسرچ میں انکا کوئی ہاتھ نہیں۔

No comments:

Post a Comment