افغانستان میں امن کی امیدِ موہوم
افغانستان
سے غیر ملکی فوج کے انخلا کی امید اب خاصی قوی ہوگئی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ صدر
ٹرمپ افغانستان سے نکلنے کا حتمی فیصلہ
کرچکے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ستمبر میں ہونے والے افغان صدراتی انتخابات سے پہلے
انخلا کے فیصلے کو آخری شکل دیدی جائے۔
یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ امریکہ میں
افغانستان سے فوجی انخلا کے خلاف تحریک بھی خاصی موثر ہے۔ 12 جولائی کو امریکی فوج
کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل مائک ملی (Gen
Mike Milley)نے افغانستان سے عجلت میں انخلا کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ
اس سے امریکہ کے مفادات متاثر ہوسکتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے جنرل ملی کو امریکہ کا نیا
جوائنٹ چیف آف اسٹاف نامزد کیا ہے اور توثیق سے پہلے سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے عسکری خدمات کی سماعت کے دوران انھوں نے جذباتی
انداز میں کہا کہ واشنگٹن کا قبرستان شہداے اٖفغانستان سے بھراپڑا ہے۔ ہمارے
سینکڑوں کڑیل جوان بھری جوانی میں معذور ہوگئے۔ اس عظیم الشان قربانی سے افغانستان
میں جو استحکام حاصل ہوا اسے جلد بازی میں ضائع کردینا مناسب نہیں۔
تاہم صدر ٹرمپ خود کو عقلِ کل سمجھتے ہیں اور جب فیصلہ
کرلیں تو کسی کو خاطر میں نہیں۔ انھوں نے انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ وہ
افغانستان میں امریکہ کی فوجی حکمت عملی کا جائزہ لے کر اہم فیصلے کرینگے۔ چنانچہ
فیصلہ کن لڑائی کیلئے 21 اگست 2017کو امریکی صدر نے افغانستان کے حوالے سے ایک
جارحانہ پالیسی کا اعلان کیا جس کے تحت 3 ہزار تازہ دم اضافی فوجی
مشیر،عسکری تربیت کار اور چھاپہ مار جنگ کے ماہر سپاہی افغانستان بھیجے گئے۔ پاکستان پرطالبان کے خلاف براہ راست کاروائی کرنے کیلئے
زبردست دباو ڈالا گیا۔ اسی کے ساتھ جرنیلوں
کو مکمل آزادی عطا کردی گئی۔صدر ٹرمپ نے امریکہ میں اضافی فوجی دستے بھیجنے کے
ساتھ عسکری قیادت کو مکمل آزادی دینے کا فیصلہ کرلیا لیکن اسی کے ساتھ جرنیلوں کو
یہ بھی گوش گزار کردیا گیاکہ امریکی صدر 12
سے 18 ماہ میں فیصلہ کن نتیجے کی توقع رکھتے ہیں اور اسے دستخط شدہ کورا چیک نہ سمجھا جائے۔
اس آزادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی سورماوں نے سارے افغانستان پر وحشیانہ بمباری شروع
کرادی۔نیٹو کے مطابق افغانستان کے مختلف علاقوں پر 600 فضائی حملے فی ماہ کئے گئے
لیکن 11 ماہ بعد جب گزشتہ برس جولائی میں
ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ 6600 سے زیادہ فضائی
حملوں کے باوجود ایک مربع انچ زمین بھی طالبان کے قبضے سے چھڑائی نہ جاسکی بلکہ بے گناہوں کی ہلاکت سے افغان حکومت کے زیراثر علاقوں میں
بھی طالبان کی حمائت بڑھتی جارہی ہے۔
امریکی حکومت کے نگراں ادارے سینئر انسپیکٹر جنرل برائے اٖفغان تعمیرِ نو یعنی SIGARکے مطابق 52 فیصد
اٖفغانستان پر طالبان کا قبضہ ہے اور اب جنوب اور مشرقی افغانستان کے پشتون علاقوں
کے ساتھ شمال میں فارسی بان صوبے بھی انکی
گرفت میں آگئے ہیں۔ SIGARکا کہنا تھا کہ نئی افغان پالیسی کے
تحت جرنیلوں نے امریکی سپاہیوں کو چھاونیوں اور اڈوں میں سراغرسانی، ڈرون کی
نگہبانی اور مقامی سپاہیوں کی تربیت تک
محدود کردیا ہے۔ اس 'احتیاط' کی وجہ سے
امریکہ میں تابوتوں کی آمد کا سلسلہ رک گیا ہے لیکن وحشیانہ بمباری کے باوجود
میدان جنگ میں طالبان مزید مضبوط ہوگئے ہیں۔ غیرجانبدار عسکری ذرایع کے حوالے سے
اس نشست میں یہ بھی کہا گیاکہ طالبان کا دباو بڑھنے کے ساتھ منشیات کے استعمال
کی وجہ سے افغان فوج کی کارکردگی ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید خراب ہوتی جارہی ہے۔
اس
رپورٹ کے بعد صدر ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کا اصولی فیصلہ کرلیا
اور جرنیلوں کوانخلا کا ایک جامع منصوبہ بنانے کا حکم دے دیاگیا۔اسی کے ساتھ وزارت
خارجہ کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز سجانے کی ہدائت کی گئی۔ امریکی صدر کے اس
فٰیصلے پر سب سے زیادہ پریشانی افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور چیف ایگزیکیٹیو ڈاکٹر
عبداللہ عبداللہ کو تھی جنکے پیروں تلے زمین ہی کھسک گئی۔
صدر ٹرمپ کے حکم پر جہاں واشنگٹن میں سوچ و بچار شروع ہوا وہیں کابل کے ڈاکٹر
صاحبان نے طالبان سے بات چیت کیلئے سنجیدہ کوششوں کا آغازکیا اور ملاوں کو انتہائی
پرکشش شرائط ہیش کی گئیں جن میں جلال الدین حقانی مرحوم کے صاحبزادے انس حقانی
سمیت تمام طالبان قیدیوں کی رہائی، سرکاری خرچ پر کابل میں طالبان کے دفتر کے
قیام، مذاکرات کیلئے ملک واپس آنے والے طالبان رہنماوں کے پاسپورٹ کا اجرا،طالبان
سپاہیوں کو فوج میں باوقار جگہ دینے اور شرکت اقتدار وغیرہ شامل ہیں۔ اسی کے ساتھ
جکارتہ اور سعودی عرب میں علما کی بیٹھک اور فتووں کے ڈول بھی ڈالے گئے لیکن
طالبان نے کابل حکومت کی پیشکش پر غور کرنے سے بھی انکار کردیا۔
وزیرخارجہ مائک پومپیو کی ہدائت پرامریکی وزارتِ
خارجہ نے طالبان سے سلسلہ جنبانی شروع
کیا۔ امریکہ کی نائب وزیرخارجہ برائے جنوب و وسط
ایشیا ایلس ویلزکی قطر میں طالبان سے براہ راست ملاقاتیں کیں جن میں ملاوں پر
زوردیا گیا کہ وہ کابل انتطامیہ سے مذاکرات کریں لیکن طالبان نے ایلس ویلز صاحبہ
سے صاف صاف کہدیا کہ اس تنازعے کے صرف دو ہی فریق ہیں یعنی امارات اسلامی
افغانستان اور امریکہ جبکہ کابل حکومت آپکی کٹھ پتلی ہے لہذا ان سے بات چیت کا
سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ واشنگٹن کے سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ محترمہ ویلز نے
اٖفغان حکومت سے مذاکرات کیلئے طالبان پر
پاکستان کے ذریعے سے دباو ڈالنے کی کوشش بھی کی مگر بات نہ بن سکی۔
ان کوششوں میں ناکامی کے بعد امریکہ نے طالبان سے براہ راست
مذاکرات کا فیصلہ کیا اورگزشتہ برس 5
ستمبر کو امریکی وزارت خارجہ نے کابل میں امریکہ کے سابق سفیر جناب زلمے خلیل زاد
کو امریکی حکومت کا نمائندہِ خصوصی برائے افغان مصالحت مقرر کردیا۔ اتفاق سے اسی دوران امریکی وزارت دفاع کے حوالےسے یہ
خبر بھی شایع ہوگئی کہ صدٹرمپ نے افغانستان میں اپنی آدھی فوج واپس بلانے کے
احکامات جاری کردئے ہیں۔لیکن خلیل زاد
صاحب کے بیان سے مزہ کرکرہ ہوگیا۔ کابل میں صحافیوں سے باتیں کرتےہوئےموصوف نے
اپنے مخصوص متکبرانہ لہجے میں فرمایا کہ اگر طالبان مذاکرات پر راضٰی نہیں تو ہم جنگ کیلئے تیار ہیں۔ اس بیان پر سخت
ردعمل سامنے آیا اور طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ امریکی فوج تیاری کرلے ہم تو گزشتہ 40
سال سے جہاد میں مصروف ہیں اور ہمیں کسی تیاری کی ضرورت نہیں۔ اس انتباہ کے دو ہی
دن بعد طالبان نے صوبے وردک کے صدرمقام میدان شہر میں افغان حکومت کے خفیہ ادارے (NDS)کے دفتر پر حملہ کرکے سواسو سے زیادہ ایجنٹوں کو ہلاک
کردیا۔ حملے میں امریکی فوج سے چھینی گئی ایک بکتر بند گاڑی استعمال کی گئی۔
اس سے
پہلے کہ معاملہ مزید خراب ہوتا امریکی وزارت خارجہ نے باقاعدہ مذاکرات پر آمادگی
ظاہر کرکے آگ پر پانی ڈالدیا۔ تاہم امریکہ کی جانب سے طالبان کو افغان حکومت سے
بات چیت پر راضی کرنے کی کوششیں جاری رہیں۔ صدر ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان کے نام
خط میں ان سے درخواست کی تھی کہ پاکستان طالبان کو افغان حکومت سے مذاکرات پر
آمادہ کرے۔ پاکستانی حکومت نے اس سلسلے میں تعاوان کا وعدہ بھی کرلیا۔
امریکہ
کی جانب سے براہ راست بات چیت پر رضامندی کے جواب میں طالبان نے یہ شرط رکھدی کہ
باقاعدہ مذاکرات سے پہلے امریکی فوج کے انخلا
کا نظام الاوقات (ٹائم ٹیبل) جاری کیا جائے۔ جواب میں امریکیوں نے اس شرط پر واپسی کا ٹائم ٹیبل دینے کی پیشکش کی کہ فوجی
انخلا کے
بعد
انھیں کم از کم تین فوجی اڈوں پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے دیا جائے۔ واشنگٹن یہ
ضمانت دینے کو تیار تھا کہ ان اڈوں پر تعینات عملہ افغانستان کے اندرونی معاملات
میں مداخلت نہیں کریگا اور ان اڈوں کے باہر طالبان کی چوکیاں ہونگی لیکن مولویوں
نے صاف صاٖف کہدیا کہ انکے لئے ایک بھی غیر ملکی سپاہی قابل قبول نہیں اڈہ تو دور
کی بات ہے۔اسی کیساتھ انھوں نے امریکیوں کو یقین دلایا کہ انخلا کے دوران واپسی کیلئے امریکی فوج کو انکی مرضی کا محفوظ و
پروقار راستہ فراہم کیا جائیگااور بعد افغانستان
کے سرزمیں امریکہ سمیت کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ انھوں نے
داعش اور دوسرے دہشت گردوں کے خلاف موثر کاروائی کا وعدہ بھی کیا۔
خیر
سگالی کے انھیں مظاہروں کے ساتھ قطر میں مذاکرات شروع ہوئے اور ہر بار معاملہ
افغان حکومت سے مذاکرات کے مسئلے پرآکراٹک جاتاکہ طالبان کیلئے یہ شرط ناقابل قبول
تھی۔ اسی دوران ایک درمیانی راستہ یہ تجویز کیاگیا کہ کابل حکومت کے بجائےافغان
رہنماوں اور مولویوں کے درمیان بات چیت کا اہتمام کیا جائے۔ طالبان کیلئے یہ تجویز
قابل قبول تھی۔ انکے ترجمان نے کہا کہ وہ افغان ملت کا حصہ ہیں اور اپنے بھائیوں
سے ملاقات ہمارے لئے مسرت و افتخار کا باعث ہوگی۔ چنانچہ ماسکو میں اٖفغان سیاسی
راہنماوں سے طالبان نے ملاقات کی۔
اسکے بعد 19 اپریل
کو اٖفغان وفد سے قطر میں ایک اور ملاقات طئے ہوئی لیکن گفتگو سے دو روز پہلے جب
طالبان کو پتہ چلا کہ کابل سے آنے والا غیر سرکاری وفد 250 افراد پر مشتمل ہے تو
انھوں ملنے سے انکار کردیا۔ طالبان کے ترجمان نے بھاری بھرکم وفد پرتبصرہ کرتے
ہوئے کہا کہ یہ ملاقات ہے ولیمے کی دعوت نہیں۔
25 جون کو امریکی وزیرخارجہ اچانک کابل پہنچے جہاں انھوں نے
کابل انتظامیہ سے ملاقاتیں کیں۔ واشنگٹن کے سفارتی حلقوں کا کہنا تھا کہ بات چیت
کےدوران مائک پومپیو نے ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو یہ باور
کرادیا کہ امریکہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان براہ راست ملاقات کے مطالبے سے
دستبردار ہورہا ہے۔ یہ خبر ڈاکٹر صاحبان
کیلئے بے حد مایوس کن تھی لیکن امریکی وزیرخارجہ نے انھیں بتایا کہ صدر ٹرمپ
طالبان سے امن معاہدے کو جلد از جلد آخری شکل دینا چاہتے ہیں جبکہ طالبان کی جانب
سے اس معاملے پر کسی لچک کی کوئی توقع نہیں لہٰذا اس موضوع پر مزید بحث و مباحثہ
غیر ضروری ہے۔
مائک پومپیو کی ملاقات کے کچھ دن بعد قطر میں امن بات چیت
کا ایک اور دور دور شروع ہوا جس سے چند روز پہلے طالبان کے ترجمان
ملا سہیل شاہین نے اشارہ دیا کہ افغانستان سے فوجی انخلاپر اصولی اتفاق ہوچکا ہے
اور اب معاہدے کے متن پر کام ہورہا ہے۔ دوسری طرف حکومت نواز طلوع نیوز نے ملا
شاہین کے انکشاف کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کی جانب سے افغان سرزمین کسی اور ملک کے
خلاف استعمال نہ ہونے کی جو ضمانت دی گئی ہے اس پر امریکی سی آئی اے اور وزارت
دفاع یا پینٹاگون نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ملاصاحب کے مطابق صدر ٹرمپ کو ڈر ہے کہ
فوجی انخلا کے بعد کہیں افغانستان دہشت گردوں کی آماجگاہ نہ بن جائے۔
افغانستان کا جغرافیہ کچھ ایسا ہے کہ وہاں چھپنے کی جگہیں بہت زیادہ ہیں جس پر صدر
ٹرمپ کو مبینہ طور پر سخت تشویش ہے۔ چنانچہ انخلا سے پہلے وہ افغانستان میں
سراغرسانی کا ایک مضبوط نظام قائم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن طالبان اس پر راضی نہیں
ہوئے۔ملا سہیل شاہین نے بتایا کہ معاہدے کیلئے طالبان کے پیش کردہ مسودے میں کچھ
ضروری ترمیم کی جارہی ہے جسکے تحت طالبان صدر ٹرمپ کے تحفظات دور کرنے کیلئے اضافی
ضمانت فراہم کرینگے۔
اس مثبت پس منظر میں امریکہ طالبان مذاکرات کا آٹھواں
مرحلہ شروع ہوا اور طالبان نے خیر سگالی کا اظہار کرتے ہوئے اس شرط پر افغان حکومت
کے وفد سے ملاقات پر آمادگی ظاہر کی کہ ملاقات انفرادی سطح پر ہوگی یعنی اس بڑے روائتی
جرگے میں امارات اسلامی کا وفد افغان عمائدین اور اپنے ہم وطنوں سے ملاقات کریگا۔
اس فکری مفاہمت کے بعد 8 جولائی کو ایک 60 رکنی وفد نے طالبان سے طویل گفتگو کی۔
افغان وفد میں خواتین بھی شامل تھیں۔ طویل بات چیت کے بعد ایک قرارداد منطور کی
گئی جسکے
اہم نکات کچھ اسطرح ہیں:
·
امن مذاکرات میں
تمام افغانوں کی شرکت کو یقینی بنایا جائیگا۔
·
افغان ملت لسانی
اختلافات سے بالاتر ہوکر ملک کو متحدہ اسلامی ریاست بنانے کیلئے پرعزم و یکسو ہے
اور ملک میں اسلامی نظام رائج کیا جائیگا
·
کانفرنس کے شرکا
طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کی مکمل حمائت کرتے ہوئے ایک ایسے خوشگوار
نتیجے کی توقع کرتے ہیں جو افغانوں کیلئے بہتر ہو
·
اعتماد کی بحالی
اور امن و اخوت کا ماحول پیدا کرنےکیلئے ضروری ہے کہ.ضعیف، بیمار اور معذور قیدیوں کی
فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کردیا جائے،۔
·
اسلامی اقدار کے مطابق
خواتین کے سیاسی، سماجی، معاشی، تعلیمی اور ثقافتی حقوق کو یقینی بنایا جائیگا
·
بدامنی کی وجہ سے
اندرون ملک ہجرت کرنے والے لوگوں یا IDPکی بحالی کا کام فوراًشروع
کردیا جائیگا
·
علاقائی اور پڑوسی
ممالک کی افغانستان کے معاملے میں عدم مداخلت کو یقینی بنایا جائگا
قرارداد
پر عملدرآمد کیلئے ایک 9 رکنی کمیٹی پر اتفاق ہوا۔ کمیٹی میں کابل انتظامیہ کے
نادرنادری، محترمہ حبیبہ سروبی، محی الدین مہدی، عمر زخی وال اور لطف اللہ نجم
زادہ شامل ہیں جبکہ ملا امیر خان متقی، مولوی شہاب الدین دلاور اور سلمان حنفی
طالبان کی نمائندگی کرینگے۔
اس ملاقات کا سب سے مثبت پہلو یہ ہے کہ گفتگو میں شریک
خواتین نے بات چیت کے دوران طالبان کے روئے کو بے حد حوصلہ افزا کردیا۔ افغان
وفد کی ایک رکن اور خواتین حقو ق کی سرگرم کارکن محترمہ انارکلی ہنرمندنے کہا کہ
وہ خواتین کے امور پر طالبان کے اندازِ گفتگو اور خیالات سے بہت متاثر ہیں۔ بات چیت کے دوران
ملاوں نے قرآ ن و سنت کے مطابق ہمارے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی ہے اور اگر طالبان
اپنےوعدے پر قائم رہے تو افغان خواتین کیلئے نیا بندوبست قابل قبول ہوگا۔
اس
تٖفصیلی ملاقات کے بعد امریکہ، طالبان اور کابل انتطامیہ تینوں کے مطالبات
پورے ہوتے نظر آرہے ہیں یعنی:
·
واپس جاتی نیٹو
فوج کیلئے پسپائی کا محفوط اور باعزت راستہ، فوجی انخلا کے بعد افغان سرزمین کا
امریکہ یا کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی ضمانت، انسداد دہشت گردی
کے موثر اقدامات اور
·
افغان کے نئے بندوبست میں کابل انتطامیہ سے وابستہ افراد
کی باعزت معافی کے علاوہ نئے نظم و نسق میں فراخدلانہ شرکت شامل ہے۔
اگر
اخباری اطلاعات درست ہیں تو پھر امریکہ کی جانب سے انخلا کا ٹائم ٹیبل جاری ہونے میں مزید تاخیر
کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی لیکن امریکہ کے مراکز دانش کا کہنا ہے کہ معاملہ ابھی تک
معاہدے پر دستخط کے مقام تک نہیں پہنچا کہ صدر ٹرمپ کو اب بھی اپنی مقننہ کی جانب
سے مزاحمت کا سامنا ہے۔ امریکی سینیٹ نے 31 جنوری کو 28 کے مقابلے میں 68 ووٹوں سے
ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ داعش اور القاعدہ کی یقینی شکست سے
پہلے شام اور افغانستان سے امریکی فوج واپس نہ بلائی جائے۔ اس قرارداد کو پس پشت
ڈالتے ہوئے صدر ٹرمپ نے شام سے تو فوج واپس بلالی لیکن یہ کہنامشکل ہے کہ کیا وہ
ایسے ہی طرزِ عمل کا معاملہ افغانستان کے معاملے پر بھی کرینگے۔
اس ضمن
میں واشنگٹں کے سفارتی حلقے وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ امریکہ کو بہت اہمیت
دے رہے ہیں۔ امریکہ کو افغانستان سے انخلا
کے بعد وسطِ ایشیا میں اپنے اثرو رسوخ کے حوالے سے شدید تحفظات ہیں۔ کچھ ماہرین کی
جانب سے یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ امریکی وزارت خارجہ کی مخالفت کے باوجود اس
ملاقات کو امریکہ اور پاکستان کی عسکری قیادت نے ممکن بنایا ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ افغان امن اس ملاقات کا
کلیدی نکتہ ہوگا اور اگر عمران و ٹرمپ ملاقات میں پسِ انخلا بندوبست کے حوالے میں
امریکہ کو مثبت ضمانتیں حاصل ہوگئیں تو طالبان امریکہ معاہدے کی منزل قریب آسکتی
ہے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 19 جولائی 2019
No comments:
Post a Comment