افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا
امریکی دارالحکومت
کے سیاسی حلقوں میں افواہ گرم ہے کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان افغانستان سے
نیٹو افواج کے انخلا پر اتفاق ہوگیا ہے اور آجکل معاہدے کے مسودے پر کام
ہورہا ہے۔ غالب امکان ہے کہ یکم اگست کو قطر میں دونوں فریق اس تاریخی دستاویز پر
دستخط کردینگے۔ باخبر ذرایع کے
مطابق امریکیوں کی خواہش ہے کہ طالبان کی جانب سے انکے سربراہ
ملا ہبت اللہ مہر تصدیق ثبت کریں لیکن طالبان کا کہنا ہے
کہ زلمے خلیل زاد ملا صاحب کے ہم منصب نہیں اسلئے انکے وفد کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر ہی طالبان کی جانب سے
معاہدے پر دستخط کرینگے۔
کل
امریکہ نے پاکستا ن کے ذریعے طالبان کو کابل حکومت سے براہ راست بات چیت
پر آمادہ کرنے کی آخری کوشش کی۔واشنگٹن کی خواہش تھی کہ فوجی انخلا کے معاہدے سے پہلے طالبان ایک رسمی سی ملاقات ڈاکٹر اشرف غنی سے کرلیں۔ اس سلسلے میں ملا ہبت
اللہ کی ڈاکٹر صاحب سے اسلام آباد میں ملاقات تجویز کی گئی۔ کابل انتظامیہ اس بارے میں اتنی پرامید تھی کہ
انکے وزیر مملکت برائے امن عبدالسلام رحیمی نے یہ بیان بھی جاری کردیا کہ اگلے دوہفتوں میں
طالبان اور افغان حکومت کے درمیاں براہ
راست مذاکرات ہونگے لیکن آج صبح
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد
نے اپنے ایک ٹویٹ میں کابل انتظامیہ سے
براہ راست بات چیت کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے فوجی انخلا کا حتمی
ٹائم ٹیبل جاری ہونے سے پہلے کابل انتظامیہ سے بات چیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ذبیح اللہ کے اس ٹویٹ سے پہلے زلمے خلیل زاد نے کہا تھا کہ طالبان اورامریکہ کے درمیان معاہدے
پر دستخط کے بعد ہی ملا کابل انتظامیہ
سے مذاکرات کرینگے۔
دوسری
طرف ملاہبت اللہ نے اسلام آباد آکرپاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت سے بات چیت کرنے
پر آمادگی ظاہر کرد ی ہے۔طالبان کے ترجمان نے کہا کہ اگر اسلام آباد نے دعوت دی تو امیر
المومنین ملا ہبت اللہ برادر اسلامی ملک کا دورہ کرینگے۔
گویا
افغانستا ن میں قیام امن کے امکانات روشن ہوتے
نظر آرہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment