Saturday, January 19, 2019

ساہیوال فائرنگ


ساہیوال فائرنگ
ساہیوال میں فائرنگ کے واقعے پر فوری نوٹس لیتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور  وزیراعظم عمران خان نے 3 دن کے اندر اس  واقعے کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔
اس ضمن میں اس واقعے کے عینی شاہد عمر خلیل کا بیان بے حد اہم ہے۔ اس بچے نے آنکھوں سے اپنی ماں،باپ، بہن اور اپنے والد کے ایک دوست کو پولیس کے ہاتھوں بے بسی سے مرتے دیکھا۔ زخمی بچے کا کہنا ہے کہ ’’ہم اپنے گاؤں بورے والا میں چاچو رضوان کی شادی میں جارہے تھے۔فائرنگ سے پہلے پاپا نے کہا کہ پیسے لےلو، لیکن گولی مت مارو۔ لیکن انھوں نے پاپا، ماما، بہن اور پاپا کے دوست مولوی صاحب کو گولی ماردی‘‘۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ پولیس نے گاڑی روکتے ہی فائرنگ کردی اور کار سے ایک بھی گولی نہیں چلائی گئی جس سے لگتا ہے کہ یہ لوگ نہتے تھے۔ گاڑی سے کپڑوں کے تھیلے برآمد ہوئے جس سے عمر خلیل کے اس بیان کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ لوگ شادی پر جارہے تھے۔
دوسری طرف ترجمان سی ٹی ڈی کے مطابق دہشتگردوں سے فائرنگ کے تبادلے میں داعش کا سرغنہ دانش مارا گیا جبکہ شاہد جبار ، عبدالرحمان اور ان کا ایک ساتھی فرار ہوگیا۔ واقعے کے مقام سے خود کش جیکٹس ، دستی بم ، اسلحہ برآمد ہوا۔
سچ بات تو یہ ہے کہ اگر یہ باحوصلہ بچہ زندہ نہ رہ جاتا تو دہشت گردوں کے خلاف کامیاب کاروائی پر اب تک  سی ٹی ڈی کو تمغہ و
انعام سے نوازا جاچکا ہوتا۔
عمران خان کی جانب سے فوری تحقیقات کا حکم قابل تحسین ہے اور لوگ امید کرتے ہیں کہ ان بیگناہوں کے خون کا حساب لیا جائیگا۔ تاہم میڈیا اور ائی آیس آئی سمیت قانون ناٖفذ کرنے والے اداروں میں دہشت گردی کے حوالے سے  باریش نوجوانوں کے بارے میں ایک لاشعوری امتیازی سلوک صاف نظر ارہا ہے۔ مثال کے طور پر:
  • اسلام آباد میں مسلح افواج کی پریڈ کے دوران قرب و جوار کےتمام مدارس کو بند کرکے انکے طلبہ کا ہاسٹل سے نکل جانے کا حکم دیا گیا۔
  • بڑے شہروں میں سی ٹی ڈی مبینہ طور پر ان نوجوانوں پر نظر رکھے ہوئے ہے جو باقاعدگی سے فجر کی نماذ مسجد میں اداکرتے ہیں۔
  • اگر کوئی ماڈرن و فیشن ایبل بچی اچانک حجاب لیناشروع کردے تو اس غریب کو متوقع مشکوک افراد کی فہرست میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اس قسم کے مشاہدات کو Profilingکہا جاتا ہے جو مغرب میں عام ہے۔
  • عمران خان خود بھی داڑھی والوں کے بارے میں تحقیر آمیز گفتگو کرتے ہیں، وہ صاٖف صاف کہہ چکے ہیں کہ 80فیصد داڑھی والے 2 نمبری ہیں اور باقی 20 فیصد پر انھیں شدید تحٖفظات ہیں۔
  • سیرت النبی کانفرنس میں نے بھی انھوں نے مولویوں کو بہت حقارت سے 'اسلام کے ٹھیکدار' کہا
  • حفاظت امن عامہ کے نام پر ہزاروں علما جیل میں ہیں جنھیں تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے جس سے ایک 80 سالہ عالم دین دوران حراست جاں بحق ہوچکے ہیں۔
  • دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد قرب و جوار کے باریش مذہبی رجحان رکھنے والے نوجوانوں کی شامت آجاتی ہے۔
 امریکہ میں پولیس ہر سیاہ فام کو مجرم پیشہ سمجھتی ہے۔ دہشت کے معاملے میں  بالکل یہی رویہ پاکستان میں داڑھی رکھنے والے نوجوانوں سے ہے۔ اگر حکومت دہشت گردی کے خلاف مہم میں سنجیدہ ہے تو اسے اپنے عملی بیانئے میں تبدیلی کرنی ہوگی۔

No comments:

Post a Comment