سربراہوں کے بغیر سربراہ کانفر نس
اتوار کو بیروت میں عرب دنیا کی اقتصادی و سماجی
سربراہ کانفرنس اس شان سے شروع ہوئی کہ اس
میں میزبان ملک لبنان کے صدر مائیکل عون کے علاوہ صرف موریطانیہ کے صدر محمد
عبدالعزیز شریک ہیں۔ باقی کسی ملک سے سربراہ مملکت تشریف نہیں لائے۔ قطر کے امیر
شیخ ثمیم بن حمد الثانی بھی محض قسم کھانے کو آئے اور اپنے لبنانی ہم
منصب کا افتتاحی خطاب سن کر وطن واپس لوٹ گئے۔
20 عرب اور افریقی ممالک کی اس کانفرنس میں عرب فری زون کے قیام، لبنان اور اردن میں شامی
پناہ گزینوں کی دیکھ بھال، عرب دنیا سے بیروزگاری کے خاتمے اور یمن تنازعے سمیت 29 نکاتی ایجنڈے پر سوچ و بچار ہونا ہے۔
کانفرنس کی
کا میابی اسکے قیام سے ہی مشکوک تھی کہ عرب دنیا کے خوشحال ترین ملک قطر کو سعودی
عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے ناکہ بندی کا سامنا ہے جسکی وجہ سے اسکی
معیشت کے ساتھ سالمیت بھی دباو کا شکار ہے۔ قطریوں کا کہنا ہے کہ اس پس منظر
میں فری زون سے قطر کا کیا فائدہ ہوگا؟ اسکے علاوہ قطر کی
خواہش تھی کہ کانفرنس میں فلسطینیوں کی حالتِ زار پر بھی غور کیا جائے اور
انکی بھرپور اقتصادی، سیاسی اور سفارتی
مدد کیلئے مربوط حکمت عملی مرتب کی جائے
لیکن MBSاور MBZبھِڑ کے چھتے سے ذرا دور ہی رہنا
چاہتے ہیں۔
بدمزگی کا آغاز کچھ روز پہلے
ہوا جب لبنان کی امل ملیشیا نے اس
سماعت گاہ کے صدر دروازے سے لیبیا کا پرچم نوچ پھینکا جہاں اجلاس منعقد ہورہا ہے۔ امل اس
بات پر سخت برہم ہےکہ لیبیا کی حکومت شیعوں کے روحانی پیشوا مام موسیٰ الصدر کی بازیابی کیلئے کوئی ٹھوس کوشش
نہیں کررہی۔ امام صاحب 31 اگست 1978 کو
کرنل قذافی کی دعوت پر اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ
شام سے لیبیا گئے تھے۔موصوف اسوقت سے غائب
ہیں۔شیعوں نے امام صاحب کے اغوا کا
الزام کرنل قذافی پر لگایا ہے۔ اکتوبر 2011میں
قذافی حکومت کے خاتمے کے بعد امل کو امید تھی کہ لیبیا کی نئی حکومت امام موسیٰ الصدر کو بازیاب کرالیگی لیکن ایسا نہیں ہوا جس پر مشتعل ہوکر امل ملیشیا نے اقتصادی
کونفرنس کے موقع پر شدید احتجاج کیا اور
اپنے پرچم کی بیحرمتی پر لیبیا نے کانفرنس
کا بائیکاٹ کردیا۔
تادم تحریر یہ کانفرنس جاری ہے
لیکن عرب سفارتی حلقوں کا خیال ہے کہ
معاملہ نشنتند، گفتند اور برخواستند سے آگے نہیں بڑھے گا۔ اس پورے معاملے میں شدید نقصان لبنان کا ہوا ہے جسے امید تھی
کہ اس اجتماع کے جملہ اخراجات قطر
اداکریگا لیکن قطری امیر حاضری سے مایوس ہوکرکچھ اعلان کئے بغیر
واپس چلے گئے۔
اب آپ ہماری پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comپر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment