Tuesday, January 8, 2019

کرد علیحدگی پسندوں کی امریکی حمائت پر صدر ایردوان کا شدید رد عمل


عثمانی طمانچہ
 ترک صدر طیب رجب ایردوان نے دورے پر آئےامریکی صدر کے مشیرِ قومی سلامتی جان بولٹن سے ملنے سے انکار کردیا۔ بعض ترک صحافیوں نے اسے عثمانی طمانچہ قرار دیا ہے۔ ایردوان پر 'الزام' ہے کہ وہ عثمانی خلافت کی تجدیدو احیا چاہتے ہیں۔
 اس عثمانی جلال کا ظہور مسٹر بولٹن کی وہ لن ترانیان ہیں جو موصوف نے اپنے دورہ اسرائیل میں فرمائیں۔ صدر ٹرمپ نے شام سے فوجی انخلا کا جو اعلان کیا ہے اس  پر اسرائیل اور امریکہ کے خلیجی اتحادیوں کو  شدید تشویش ہے۔ بولٹن کے دورے میں اسرائیلی وزیراعظم نے انخلا کے فیصلے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جلدبازی کے نتیجے میں یہاں  ایران کا عسکری اثر ورسوخ مزید بڑھ جائیگا۔ نیتھں یاہو کا کہنا تھا کہ امریکی فوج کی واپسی سے  تہران کو کھل کھیلنے کا موقع ملے گا۔
اسرائیل کی تشفی کیلئے جان بولٹن نے انھیں یقین دلایا کہ امریکہ کے فوجی انخلا سے پہلے اس بات کو یقینی بنایا جائیگا کہ ایران اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ انکا کہنا تھا کہ داعش کی مکمل شکست کے بعد ہی شام سے امریکی فوجوں کی واپسی شروع ہوگی۔اسی دوران جان بولٹن یہ بھی کہہ گئے کہ انخلا سے پہلے ترکی سے کرد چھاپہ ماروں کے تحفظ کی ضمانت لی جائیگی۔
اس بیان پر ایردوان سخت طیش میں آگئے اور انھوں نے کہا کہ ترکی کیلئے سب سے اہم ہماری قومی سلامتی ہے اور دہشت گردوں کا تحفظ امریکہ ہی کو مبارک ہو۔ انھوں نے کہا کہ امر یکہ کی شام میں موجودگی ان دونوں ملکوں کا معاملہ ہے لیکن ہم اپنی سرحدوں کے قریب دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے نہیں رہنے دینگے۔ ہمارے لئے داعش اورYPG(کرد دہشت گرد تنظیم )میں کوئی فرق نہیں۔
جناب ایردوان نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ترکی کے دورے پر آئے جان بولٹن سے ملاقات سے انکار کردیا اور امریکہ کا موقف جاننے کیلئے اپنے ترجمان ابرہیم کالن کو ملاقات کیلئے بھیجا۔ دورے کے اختتام پر نہ صرف مشترکہ پریس کانفرنس منسوخ کردی گئی بلکہ وزارت خارجہ نے کوئی رسمی اعلامیہ بھی جاری نہیں کیا۔ جان بولٹن ایک انتہائی مغرور اور بدزبان سفارتکار ہیں لیکن جب سے انھوں نے موجودہ ذمہ داری سنبھالی ہے وہ باربار توہین کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اس سے پہلے شمالی کوریا کی وزرات خارجہ نے  توہین آمیز تبصرے پر مسٹر بولٹن کی زوردار کلاس لی اور شمالی کوریا کے وزیرخارجہ نے ان سے ملنے سے انکارکردیا۔

No comments:

Post a Comment