Monday, January 7, 2019

سعودی عرب سے روہنگیا مسلمانوں کی بیدخلی


گھر پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھرگیا
گھر پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھرگیا: کچھ عرصہ پہلے سعودی عرب نے ہزاروں روہنگیا (برمی) مسلمانوں کو پناہ دی تھی۔ اب اچانک شہزادہِ گلفام نے آنکھیں پھیر لیں ہیں ا ور سعودی امیگریشن حکام نے ان لوگوں کی مشکیں کس کر ملک بدری کیمپ (Deportation Camp) میں ٹھونس دیا۔ یہ بے سہارا لوگ اپنے ملک تو واپس جانہیں سکتے چانچہ انھیں بنگالی قراردیکر بنگلہ دیش بھیجا جارہا ہے۔ دوسری طرف بنگلہ دیشی حکومت انھیں لینے کو تیار نہیں۔
احباب یقیناً سوچ رہے ہونگے کہ روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں سعودی عرب کی پالیسی اچانک تبدیل کیسے ہوگئی تو صاحبو اسکے پیچھے نامراد تیل کی سیاست ہے۔
 اسوقت چین سعودی تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے اور چین نے اراکان کی بندرگاہ کیک پھیو (Kyaukphyu) سے اپنے صوبے یونان (Yunnan)تک پائپ لائن بچھالی ہے جسکے صدر مقام کمنگ (Kunming)میں تیل صاف کرنے کے کارخانے ہیں۔ چین کی دوسری تمام بندرگاہیں اسکے مشرقی ساحل پر ہٰں جہاں سے ملک کے مغربی و شمالی حصوں کو تیل کی ترسیل میں دیرلگتی ہے اور اس پر نقل و حمل کا خرچہ بھی بہت زیادہ ہے۔
 تیل کی یہ پائپ لائن روہنگیا علاقے سے گزرتی ہے اور مسلم آبادی ختم کرکے اسکا راستہ تراشہ گیا ہے۔ چینیوں کو خوف ہے کہ یہاں سے نکالے گئے روہنگیا مسلمان اگر اراکان واپس آئے تو اپنے علاقوں میں آبادکاری پر اصرار کرینگے جو چین پہلے ہی ہتھیا چکاہے۔سعودی عرب سے خریدا جانیوالا تیل کیک پھیو سے برہ راست یونان جانے والی پائپ لائن میں ڈالا جارہا ہے۔ چین ریاض پر دباو ڈال رہا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کی مدد سے ہاتھ کھینچ لے۔ چنانچہ ان لوگوں کو بوریا بستر لپیٹنے کا حکم جاری کردیا گیا۔ لیکن بے چارے جائیں تو جائیں کہاں ۔ اپنا وطن چھن گیا اور دوسرا کوئی لینے کو تیار نہیں۔ ان بےچاروں پر اللہ کی زمین بھی تنگ ہوگئی ہے۔


No comments:

Post a Comment