پیٹھ میں چھرا یا پیروں پر کلہاڑا
غیر
مصدقہ اطلاعات کے مطابق طالبان رہنما حافظ محب اللہ کو پشاور میں گرفتار کرلیا
گیا۔یہ خبرغیر مصدقہ اس اعتبار سے ہے کہ حافظ صاحب کی گرفتاری کا دعویٰ افغانستان
میں طالبان کے ترجمان نے کیا ہے جبکہ تادم تحریر پاکستان نے اس کی تردید یا تصدیق
نہیں کی ۔ حافظ صاحب طالبان حکومت میں وزیراوقاف تھے۔
یہ
گرفتاری ایسے وقت کی گئی ہے جب طالبان سے بات چیت کیلئے امریکہ کے خصوصی نمائندے
زلمے خلیل زاد اور نائب وزیرخارجہ محترمہ ایلس ویلز علاقے میں ہیں اور بدھ کو انکی
اسلام آبادتشریف آوری متوقع ہے۔امریکہ افغانستان میں اپنی عسکری ناکامی کو شکست
فاتحانہ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
طالبان نے ابتدا ہی میں امن مذاکرات کیلئےدو
بنیادی شرائط رکھی تھیں یعنی امریکہ سے براہ راست ملاقات اور افغانستان سے غیر
ملکی فوج کا مکمل، غیر مشروط اور فوری انخلا۔ دوسری طرف امریکہ کا اصرار تھا کہ
امن بات چیت طالبان اور کابل انتظامیہ کے درمیان ہونی چاہئے۔ طالبان نے افغان
حکومت سے بات چیت کرنے سے صاف انکار کردیا۔ قطر میں طالبان اور امریکہ کی براہ
راست ملاقاتوں سے یہ تاثر ابھرا کہ امریکہ نے افغان حکومت سے ملاقات پر اصرار ترک
کردیا ہے اور وہ اب وہ ملاوں سے براہ راست مذاکرات پر تیار ہے۔ انخلا کے باب میں
سخن گسترانہ بات یہ آن پڑی کہ امریکہ افغانستان سے واپسی کے بعد بھی ملک میں کم از
کم تین فوجی اڈوں پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ واشنگٹن یہ ضمانت دینے کو
تیار ہے کہ ان اڈوں پر تعینات عملہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں
کریگا اور ان اڈوں کے باہر طالبان کی چوکیاں ہونگی لیکن مولوی ایک بھی غیر ملکی
سپاہی کو ملک میں رکھنے کیلئے روادار نہیں۔ وہ اس بات کی ضمانت دینے کو تو تیار
ہیں کہ افغان سرزمین امریکہ یا کسی بھی اور ملک کے خلاف استعمال نہیں کرنے
دیجائیگی لیکن غیر ملکی فوجی اڈے انکے لئے قابل قبول نہیں۔
اس
تعطل کے نتیجے میں افغانستان حکومت سے مذاکرات پر اصرار مزید بڑھ گیا اور طالبان
کو رضامند کرنے کی ذمہ داری پاکستان کو سونپی گئی چنانچہ پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ
محمودقریشی کی جانب سے یہ رعونت آمیز بیان آیا کہ طالبان کو افغان حکومت سے
مذاکرات کرنے ہونگے۔ اسی کے ساتھ طالبان پر دباو شدید کردیا گیا۔حسب توقع طالبان
نے صاف منع کردیا۔ دوسری طرف اسلام آباد پر امریکہ کی جانب سے دباو برقرار رہا۔ اب
ایسا لگ رہا ہے کہ طالبان کا مزاج درست کرنے کیلئے حافظ صاحب کو گرفتار کیا گیا
ہے۔کیا اس گرفتاری یا مستقبل میں مزید سختی و تشدد سے طالبان کو افغان حکومت سے
مذاکرات پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔اسکا فطری جواب نفی میں ہے کہ گوانتانامو کے عقوبت
خانہ انکے اعصاب کو شکست نہ دے سکا تو پشاور یا اڈیالہ جیل انکا کیا بگاڑلیگی۔
تاہم معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں۔ کابل کے عسکری
حلقوں کا خیال ہے کہ مذاکرات کو طول دے کر میدان میں برسرپیکار طالبان کی توجہ
بٹانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔چھاپہ ماروں کو یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ لڑائی تقریباً
ختم ہوچکی لہذا اب ہتھیار رکھ کر نئے بندوبست میں اپنا مقام بنانے کی فکر
کرو۔گوریلا سپاہی جب ایک بار اپنے ہتھیار سے غافل ہوجائے تو اسے دوبارہ سربکف کرنا
اتنا آسان نہیں۔
دوسری
طرف امریکہ کے مبینہ اصرار پر پاکستان کی حالیہ کاروائی سے طالبان دلبرداشتہ ہیں۔
ملاوں نے چند ہفتہ پہلے بہت دوٹوک اعلان کیا تھا کہ امن مذاکرات میں ہندوستان کا
کوئی کردار نکے لئے قابل قبول نہیںَ۔ لیکن اس توہین کو نظرانداز کرتے ہوئے دہلی
طالبان سے راہ رسم استوار کرنے کی کوششو ں میں مصروف ہے۔ بھارتی فوج کے سپہ سالار
کھل کر کہہ چکے ہیں کہ طالبان سے براہ راست بات چیت وقت کی ضرورت ہے۔ خبر گرم ہے
کہ دہلی ایران کے ذریعے طالبان سے رابطے میں ہے۔ ایرانی وزیرخارجہ جاوید ظریف کا
کہنا ہے کہا اسوقت بھی چاہ بہار کی بندرگاہ اٖفغان تجارت کیلئے استعمال ہورہی ہے
اور افغانستان سے غیر ملکی فوج کے انخلا کے بعد ایران تعمیر نو کیلئے برادر ملک کی
مزید مدد کریگا۔ یہ تو آپکو معلوم ہی ہے کہ چاہ بہار بندرگاہ کا انتظام عملی طور
پر ہندوستانی بحریہ کے ہاتھ میں ہے۔گزشتہ ہفتے سمرقند میں First India-Central Asia Dialogue کے
دوران ہندوستانی وزیرخارجہ شریمتی شسما سوراج نے طالبان کوافغانستان کی تعمیر نو کیلئے
مدد کی پیشکش کی تھی۔پاکستان کی ناقص سفارتکاری کا کمال دیکھیں کہ بھارت کے دشمن
کو ہم خود ہی دھکیل دھکیل کر دلی کے قریب کررہے ہیں۔ ہے۔ معلوم نہیں حافظ صاحب کو
گرفتار کرکے اسلام آباد نے طالبان کی پشت میں چھرا گھونپا ہے یا یہ اپنے ہی پیر پر
کلہاڑا مارنے کی ایک کوشش ہے۔
No comments:
Post a Comment