Monday, January 14, 2019

ترکی و امریکہ کے درمیان مفاہمت کی کوششیں


مفاہمت کی کوششیں
کل ترکی کی معیشت کو نشانِ عبرت بنادینے کی دھمکی کے فوراً بعد صدر ٹرمپ نے فون پر اپنے ترک ہم منصب سے رابطہ کرلیا۔ کل شام سے امریکی فوج کے انخلا کی تصدیق کرتے ہوئے انھوں نے دھمکی دی تھی کہ 'اگر ترکی نے شام میں ہمارے کرد حلیفوں کو نشانہ بنایا تو اسکی معیشت کو خاک کردیا جائیگا'۔ صدر ایردوان نے اس ٹویٹ کا خود جواب دینے کے بجائے اپنے ترجمان ابراہیم کالن کو آگے کردیا جنھوں نے امریکی صدر کانام لئے بغیر اپنے ٹویٹ میں کہا کہ کرد چاہے شامی ہوں یا ترک ہمارے بھائی ہیں جنکی جان، مال، اور عزت وآبرو کی حفاظت ترک فوج کا مقدس قومی فریضہ ہے باقی رہے دہشت گرد تو ان سے نمٹنا ہم جانتے ہیں۔صدر ٹرمپ کی آتش بیانی پر صبر و تحمل کیساتھ دوٹوک جواب کو امریکہ کے سفارتی حلقوں نے Cool but firmقراردیا ہے۔ یعنی بہت ہی شائستہ انداز میں امریکہ کی دھمکی کو مسترد کردیاگیا۔شام سے بستر گول ہونے کے بعد امریکہ بہادر کے لئے ترکوں سے 'دوستی' کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں۔ امریکہ گزشتہ کئی ماہ سے ترکی کی معیشت کو تباہ کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہے اور اب اسکے ترکش میں کوئی نیا تیر باقی ہی نہیں رہا۔ترک صدر کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ فون پر بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے ترک شام سرحد پر امریکہ و ترکی کے مشترکہ گشت کی تجویز دی جسے مبینہ طور پر ترکی نے ترنت مسترد کردیا کہ اسکا مطلب امریکی فوج کی جزوی موجودگی کو اخلاقی جواز فراہم کرنا ہوگا۔ باوثوں ذرایع کے مطابق مشترکہ گشت کے حوالے سے صدر ایردوان کی عدم دلچسپی پر صدر ٹرمپ نے ترکی و شام کے درمیان ایک محفوظ پٹی یا de-militarized zoneبنانے کی تجویز دی تاکہ YPGچھاپہ ماروں اور ترک فوج کے درمیان خلیج پیدا کردی جائے۔ جسکے جواب میں صدر ایردوان نے امریکی صدر کو سمجھایا کہ ترکی کو کردوں، شامیوں اور امریکیوں سے کوئی شکائت نہیں نہ ان سے کسی قسم کا جھگڑا ہے۔ ترک مہمان نواز قوم ہے اور ہم ساری دنیا کو اپنے ملک میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ ہماری لڑائی صرف دہشت گردوں سے ہےچاہے وہ کسی بھی قوم سے ہوں۔گفتگو بات چیت جاری رہنے کے وعدے پر ختم ہوگئی۔

No comments:

Post a Comment